پیر مکرم الحق
mukarampeer@gmail.com
پاکستان بار کونسل کی انتظامی کمیٹی نے کل ایک میٹنگ میں جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن کی چار ماہ پہلے سے جاری قید کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ایک تین رکنی کمیٹی کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے جو میر شکیل الرحمن کے جاری مقدمہ کی تحقیقات کرتے ہوئے مقدمہ کی کارروائی کا تسلسل سے جائزہ لے کر اپنا لائحہ عمل مرتب کرےگی، یاد رہے کہ جنگ اخبار پاکستان کا سب سے پرانا اور سرکولیشن (اشاعت) کے لحاظ سے سب سے بڑا اخبار ہے، مارچ 2020ءمیں میر شکیل الرحمن پر 1986ءمیں ایک سرکاری پلاٹ ارزاں نرخ پر خریدنے پر مقدمہ قائم کر کے گرفتار کیا گیا، چونتیس سال بعد ایک سول مقدمہ میں اتنے بڑے صحافی خاندان کے رکن کی ایک سول مقدمہ میں گرفتاری اور چار ماہ میں ضمانت بھی نہ ہونے پر پوری عالمی برادری میں ہلچل مچ گئی ہے اور یورپی یونین نے بھی حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ کُھلم کُھلا آزادی¿ صحافت پر ایک رفیق حملہ ہے، میر خلیل الرحمن جو کہ میر شکیل الرحمن کے والد تھے ایک محنتی، ذہین اور جید صحافی تھے جنہوں نے پاکستان بننے سے پہلے جنگ اخبار کا آغاز کیا تھا اور دہلی میں اس اخبار جو کہ ایک معمولی تعداد میں چھپتا تھا ،اس اخبار کے میر صاحب ون مین شو تھے ،تن تنہا اس اخبار کے ایڈیٹر، کیلی گرافر اور پرنٹر ہونے کےساتھ ساتھ ڈسٹری بیوٹر بھی تھے۔ تقسیم کے بعد یہ اخبار کراچی لے آئے اور دن رات کی محنت و مشقت سے انہوں نے اس اخبار ”جنگ“ کو ایک بین الاقوامی اخبار بنایا۔ لندن سے یہ اخبار کئی دہائیوں سے چھپتا آرہا ہے۔ وادی¿ کشمیر کا ایک غریب خاندان دلی تلاش روزگار کے سلسلے میں ہجرت کر گئے جہاں سے 1927ءمیں پیدا ہونےوالے میل شکیل الرحمن میٹرک کے بعد دریا گنج کمرشل کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ زمانہ¿ طالبعلمی میں ہی جنگ اخبار کی بنیاد ڈال کر دن رات ایک کر کے اس اخبار کا آغاز کر دیا۔ انہیں ہوش سنبھالتے ہی خبریں سننے کا شوق ہو گیا اور اس طرح ا نھوں نے اپنی صحافتی سفر کا آغاز 1940ءمیں کیا۔ پاکستان آنے کے بعد بھی انہوں نے اپنی ملنساری اور محنتی مزاج سے نہ صرف اخبار جنگ کو رواں دواں کیا اس سلسلے میں فیروزسنز کے مالک عبدالغنی برق سے لیا ہوا پانچ ہزار کا قرض ہی وہ اثاثہ تھا جس سے جنگ اخبار کا 14 اگست 1947ءسے آغاز ہوا۔ اس وقت کے گورنر جنرل اور بانی¿ پاکستان نے میر شیل الرحمن کی اس پُر عزم کوشش کوسراہا۔ قائداعظم نے میر صاحب کو سرکاری امداد کی آفر بھی کی لیکن میر خلیل الرحمن اپنے اخبار پر سرکاری ترجمانی کا ٹھپہ نہیں لگوانا چاہتے تھے ،اسی لئے انہوں نے مودبانہ معذرت کرتے ہوئے اس اخبار کو اعلیٰ صحافتی انداز میں پروان چڑھایا۔ جنرل ایوب خان کی حکومت سے جنگ اخبار پر قدغن لگنا شروع ہو گئی تھیں ،یہ واحد اردو اخبار تھا جو کہ عوامی مقبولیت اور پڑھنے والوں کی تعداد کی وجہ سے ایک طاقتور اخبار تھا، پھر آنے والی تمام حکومتوں نے جنگ پر مختلف طریقوں سے دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ اپنے مو¿قف پر ڈٹے رہے اور صحافتی اعلیٰ اقدار کے رہنما اصولوں کی پیروی کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بھی کئی مرتبہ جنگ اخبار کی کوریج پر اعتراض کیا لیکن بطور ایک جمہوری سیاستدان انہوں نے میڈیا کی آزادی سلب نہیں کی، ہر آمریت کے دور میں جنگ کو مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا لیکن پھر بھی انہوں نے دباﺅ برداشت کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا۔ میر شکیل الرحمن کی وفات 25 جنوری 1992ءکو کراچی میں ہوئی جس کے بعد ہی ان کے فرزند شکیل الرحمن نے جنگ اخبار کی باگ ڈور سنبھالی، حالانکہ اس سے پہلے بھی میر شکیل الرحمن جنگ اخبار کے معاملات میں دلچسپی رکھتے رہے اور اپنے والد سے رہنمائی لیتے رہے لیکن فیصلے بڑے میر صاحب ہی کرتے رہے 1986ءکی زمین الاٹمنٹ کا معاملہ بھی براہ راست میر خلیل الرحمن مرحوم نے کیا ہوگا۔ 1986ءمیں جنرل ضیاءبرسر اقتدار تھے اور محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے اب وہ تین شخصیات اس دنیا میں ہیں ہی نہیں اگر میر خلیل الرحمن مرحوم کے کسی فیصلے یا معاملے میں شکیل الرحمن کو چار ماہ تک بلا ضمانت جیل میں رکھا جا سکتا ہے تو پھر جنرل ضیاءکا فرزند ارجمند اعجاز الحق بھی حیات ہے اور محمد خان جونیجو کے صاحب زادے اسد جونیجو بھی پاکستان ہی میں موجود ہیں میں نہیں سمجھتا اس اراضی کی الاٹمنٹ میں کوئی گھپلا ہے یہاں کوئی کسی اور طریقہ کے بے قاعدگی ہو سکتی ہے لیکن کسی بیٹے کو اس کے والد کی گئی بے قاعدگی کی سزا تو نہیں دی جا سکتی ہے۔ عمران خان جب تک وزیراعظم نہیں بنے تھے ،میڈیا کی آزادی کا راگ الاپتے رہے ا،ب تو میڈیا پر قدغن لگانے میں وہ آمروں کو بھی پیچھے چھوڑ آئے کل انہوں نے چینل 24 جو کہ لاہور کا مقامی ٹی وی چینل ہے ،اس کا لائسنس محض اس وجہ سے منسوخ کر دیا کہ سڑک پر رپورٹر کے سوال کے جواب میں عمران خان کو بُرا بھلا کہا گیا، اس پٹھان عورت نے جو غریب ہونے کے باعث برا بھلا تو کہہ سکتی تھی، ٹی وی چینل بند کروا دیا جب صحافی برادری احتجاج کرتے ہوئے اسی چینل کے دروازے پر گئی تو صحافیوں پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس میں کئی صحافی زخمی بھی ہوئے ۔
٭٭٭