کراچی:
اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین کے اپنی تقرری کے خلاف عدالتوں میں دائر مقدمات میں الجھنے اور ایچ ای سی حکام کی ہائر ایجوکیشن کے معاملات میں بڑھتی ہوئی عدم دلچسپی کے اثرات ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کے ریجنل آفس پر پڑنے شروع ہوگئے۔
کراچی سے سندھ بھرکی سرکاری جامعات کے طلبا کی ڈگری ویری فکیشن کاعمل 5 سے بڑھ کر 25 روز تک جا پہنچا ہے جبکہ کچھ کیسز میں ڈگری کی تصدیق کی ’’پروسیسنگ‘‘ کا وقت ایک ماہ سے بھی تجاوز کر گیا ہے جس سے کراچی سمیت سندھ بھرکے ہزاروں طلبا و طالبات شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کو اپنی پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ مزید اعلیٰ تعلیم کیلیے بیرون ملک جانے میں مشکلات درپیش ہیں۔
واضح رہے کہ اسناد کی ویریفیکیشن کے عمل میں تعطل اور تاخیرکا سلسلہ ریجنل ڈائریکٹرکراچی کی اسامی پر تعینات افسر کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے شروع ہوا ہے اور اس وقت کراچی سمیت سندھ بھرکی 52 سرکاری و نجی جامعات کی اسناد کی تصدیق کرنے والے اس ادارے کی ذمے داری گریڈ 18کے ایک جونیئر افسرکے پاس ہے جو اس معاملے پر قابو پانے میں ناکام ہیں، 52 میں سے صرف 31 کے قریب جامعات کراچی میں قائم ہیں۔
’’ایکسپریس‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ڈگری کی تصدیق کے نظام کو بہتر بنانے اور تصدیق کا عمل تیز کرنے کے بجائے اب ایچ ای سی ہزاروں روپے کی فیس کے ساتھ ڈگری کی ارجنٹ ویریفیکیشن کا نظام شروع کر رہی ہے جو طلبہ میں مزید ایک مالی بوجھ بن کر سامنے آئے گا، واضح رہے کہ اپنی اسناد کی تصدیق کیلیے ایچ ای سی کے پورٹل پر درخواست دینے والے سندھ کے طلبا و طالبات کو ریجنل آفس کراچی کی جانب سے اپنی دستاویزات جمع کرانے کیلیے 25 دن یا اس سے بھی زائد دنوں کا وقت دیا جا رہا ہے اور ایک طویل مرحلے سے گزر کر طلبا اپنی اسنادکی تصدیق کرانے میں کامیاب ہو پا رہے ہیں۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ کراچی سے اسناد کی تصدیق کا عمل شروع ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں تاہم طویل عرصے سے ایچ ای سی کایہ ریجنل دفترروزانہ محض 120طلبا کی اسنادکی تصدیق کرتاہے۔ ذرائع کاکہناہے کہ روزانہ پورٹل پر درخواستیں دینے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے تاہم اس کے باوجود ایچ ای سی کئی سال سے رائج اس تعداد میں اضافہ کرنے اور ایک روز میں 120سے زائد طلبا کو تصدیق کی سہولت دینے میں ناکام ہے۔
یاد رہے کہ ایچ ای سی کے ریجنل آفس کراچی میں عملے میں مجموعی تعداد 36 ہے جس میں 10کے قریب افراد ڈگری کی تصدیق کے عمل میں شامل رہتے ہیں۔ ایچ ای سی اس وقت طلبہ سے فی دستاویز (اصل)800روپے جبکہ فوٹوکاپی کی تصدیق کے فی دستاویز500چارج کررہاہے۔ واضح رہے کہ کراچی سمیت سندھ بھرمیں 52سرکاری ونجی جامعات موجودہیں ایچ ای سی کے ریجنل دفتر ان جامعات کی مانیٹرنگ اورایویلیوایشن کے ساتھ ساتھ ان کے فارغ التحصیل طلبہ کواسناد کی ویریفیکیشن کی سہولت فراہم کرنے کاپابندہے۔
ادھرقائم مقام اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ریجنل ڈائریکٹرکراچی حاکم علی تالپور سے جب ’’ایکسپریس‘‘ نے سوال کیا کہ پورٹل پر اسناد کی تصدیق اورمساوی قراردینے کے لیے درخواست دینے والے طلبا و طالبات کو اسناد جمع کرانے کے لیے ماضی کی نسبت اب 20 سے 25 روز کا وقت کیوں دیا جا رہا ہے؟ اس سوال پر پہلے تو انھوں نے یہ جواز پیش کیا کہ اب طلبہ کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے تاہم مسلسل استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ہمیں درپیش ہے تاہم اس کافوری حل ممکن نہیں ہورہا۔
اب ایچ ای سی نے فیصلہ کیاہے کہ اسنادکی تصدیق کے لیے ’’ارجنٹ سروس‘‘ شروع کی جائے طالب علم ایک ہی روزمیں اپنی اسنادکی تصدیق کراسکے گاتاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیاکہ اس کی فیس رائج طریقہ کارسے زیادہ لی جائے گی، واضح رہے کہ ریجنل آفس کراچی میں ڈائریکٹرکاعہدہ گزشتہ تقریباًساڑھے تین ماہ سے خالی ہے اورایچ ای سی اسلام آباد نے گریڈ 20کی اس اسامی پر 30جنوری سے گریڈ 18کے افسرحاکم علی تالپورکوتعینات کررکھاہے یہ چارج سابق ریجنل ڈائریکٹرجاوید میمن کوعہدے سے ہٹاکرانھیں دیا تھا۔
جاوید میمن کے ساتھ مزیددوافسران ڈپٹی ڈائریکٹرمبشرمیمن اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرآفاق احمد کوایک خاکروب کی جانب سے خود کشی کے مبینہ معاملہ سامنے آنے اوراس میں غیرذمے داری برتنے کے الزام میں عہدوں سے ہٹاکراسلام آباد رپورٹ کرادی گئی تھی۔ ایچ ای سی اسلام آباد کے ذرائع کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں انکوائری کمیٹی بنی جس کی رپورٹ کے مطابق خود متعلقہ خاکروب کوہی اس معاملے کاذمے دار ٹھہرایا گیا اور ایچ ای سی کے ایگزیکٹو و ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد اصغرکی جانب سے جاری کیے گئے ایک آفس آرڈرمیں اسے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔
اس خط میں کہاگیاکہ وہ خود کشی کی کوشش کرکے ایک مجرمانہ عمل کے مرتکب ہوئے ہیں جس سے ایچ ایس سی کی ساکھ متاثرہوئی ہے انھوں نے ادارے کوبلیک میل کرنے کی کوشش کی لہذاانھیں یکم مارچ 2019سے جبری ریٹائرکیاجارہاہے اس خط کے جاری ہونے کے تقریباًڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود ایچ ای سی کراچی میں عہدوں سے ہٹائے گئے تینوں افسران کے حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے آسکاہے اورنہ ہی انھیں بحال کیاجاسکاہے۔
تین اہم افسران کوعہدوں سے ہٹائے جانے کے سبب ایچ ای سی میں اسناد کی تصدیق کاعمل بری طرح متاثرہے، یاد رہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے اسلام آباد کے علاوہ ملک کے چاربڑے شہروں کراچی ،لاہور،کوئٹہ اورپشاورمیں ریجنل دفاترقائم کرکے یہاں سے اسناد کی تصدیق کی جاتی ہے تاہم دوبڑے شہروں کراچی اورلاہورمیں ریجنل ڈائریکٹرکی گریڈ 20کی اسامی پر بالترتیب گریڈ 18 اور19کے افسران قائم کررہے ہیں تاہم کوئٹہ اورپشاورکے چھوٹے سینٹرز میں گریڈ 20کے افسران تعینات ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایچ ای سی کے پاس ڈگری کلاسز کی اسناد کی تصدیق کے لیے متعلقہ جامعات کے طلبہ کاکوئی ڈیٹا یا ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے یہ اسناد محض متعلقہ سرکاری ونجی جامعات سے لی گئی ’’سیمپل ڈگری‘‘ کودیکھتے ہوئے بغیرکسی مکینزم کے ہی کی جارہی ہے جس سے اسناد کی تصدیق کا پورا عمل ہی سوالیہ نشان بن گیاہے ایچ ای سی کے پاس یہ ڈیٹاتک موجودنہیں ہے کہ جوطالب علم اپنی دستاویزکی تصدیق کے لیے ان سے رابطہ کررہاہے کہ اس کی متعلقہ جامعہ میں انرولمنٹ کس سال ہوئی اوروہ کس سال فارغ التحصیل ہواہے جبکہ اہم بات یہ ہے کہ خود ایچ ای سی ان اسناد کی تصدیق متعلقہ جامعات سے ویریفیکیشن کرانے کے بجائے محض اپنے پاس موجود سیمپل ڈگریوں کی بنیاد پر ہی کر رہا ہے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ ایچ ای سی کے پاس محض جامعات کے ڈگری پروگرامزکی معلومات موجودہیں جومتعلقہ جامعات نے خود اپنے پورٹلز پر اپ لوڈ کر رکھی ہیں، علاوہ ازیں کراچی سے اسناد کی تصدیق کے مکینزم کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر قائم مقام ریجنل ڈائریکٹرکراچی حاکم علی تالپور کا کہنا تھا کہ ان کے پاس متعلقہ افسران کے ’’سگنیچرز‘‘ کے ساتھ ساتھ جامعات کی جانب سے دیے ہوئے ڈگریوں کے سیکیورٹی ’’فیچرز‘‘ موجود ہیں جن کی بنیاد پر تصدیق کی جاتی ہے تاہم کسی بھی یونیورسٹی کے طلبہ کوکسی قسم کاڈیٹاایچ ای سی کے پاس موجود نہیں جس کی بنیاد پر ویری فکیشن کی جا سکے ان کاکہناتھاکہ اب کچھ نجی جامعات نے اپنا ڈیٹا دینا شروع کیا ہے۔