سانحہ بلدیہ کیس کا فیصلہ!!!

0
87

کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے آٹھ سال بعد بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نامزد مرکزی ملزمان زبیر چریا اور عبدالرحمان عرف بھولا کو سزائے موت جبکہ چار دیگر سہولت کاروں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔اس کیس میں نامزد چار دیگر ملزمان رﺅف صدیقی، اقبال ادیب خانم، عمر حسن قادری، عبدالستار کو عدم شواہد کی بنا پر بری کر دیاگیا ہے۔انصاف کے انتظار میں بہت سے ستم رسیدہ اس دوران اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔یہ افسوسناک واقعہ ان ہزاروں مظالم میں سے ایک ہے جو اہل کراچی پر ایک مخصوص تنظیم نے گزشتہ پنتیس سال میں ڈھائے۔فیصلے پر متاثرہ خاندانوں کا رد عمل ظاہر کرتا ہے کہ حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے اور عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بلدیہ ٹاﺅن میں حب ریور روڈ کے قریب واقع ڈینم فیکٹری میں 11 ستمبر 2012 کو لگنے والی آگ میں جھلس کر 260 مرد و خواتین مزدور جاں بحق اور 50 کے قریب زخمی ہو ئے تھے۔اکثر مرنے والوں کے لواحقین کو زر تلافی کے معاملات سرکاری اور سیاسی عہدیداروں کی لالچ و بے حسی کا شکار رہے۔ فیکٹری میں آتش زنی کے مقدمے میں ایم کیو ایم کے سابق صوبائی وزیر رﺅف صدیقی، کراچی تنظیم کے سربراہ حماد صدیق، ایم کیو ایم کے اس وقت کے سیکٹر انچارج عبدالرحمان عرف بھولا، زبیر چریا، حیدرآباد کے تاجر ڈاکٹر عبدالستار خان، عمر حسن قادری، اقبال ادیب خانم، فیکٹری کے چوکیدار شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد کو ملزم قرار دیا گیا تھا۔ملزمان پر الزام تھا کہ انھوں نے کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے حکم پر بھتے کی عدم ادائیگی پر فیکٹری میں آگ لگائی۔کچھ ملزمان نے بعد میں مالکان سے رقم بٹوری جو ان کے بینک اکاوئنٹس میں منتقل ہوتی رہی اور اسی رقم سے ملزمان نے جائیدادیں خریدیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ فیکڑی میں آگ شارٹ سرکٹ سے نہیں لگی بلکہ لگائی گئی تھی۔فیکٹری میںآتشزدگی کے واقعے پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق یہ حادثہ نہیں ’دہشتگردی‘ تھی اور مبینہ طور پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے ایما پر ایم کیو ایم کے کارکنوں نے یہ اقدام اٹھایا تھا۔جے آئی ٹی نے پولیس کی تحقیق پر بھی کئی سوالات اٹھائے اور کہا کہ تفتیش غیر پیشہ وارانہ طریقے سے کی گئی۔سیاسی اور مجرمانہ اثر و رسوخ بروئے کار لاتے ہوئے ابتدائی طور فیکٹری کے مالکان عبدالعزیز بھائیلہ ان کے دو بیٹوں سمیت جنرل منیجر اور چار چوکیداروں پر غفلت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تاہم اس مقدمے نے اس وقت دوسرا رخ اختیار کیا جب سن 2015 میں رینجرز کی جانب سے ہائی کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پیش کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو آگ لگائی گئی۔ اس عمل کو دہشت گردی قرار دیا گیا۔سن 2016 میں دوبارہ تحقیقات کے بعد پولیس نے نیامقدمہ درج کیا، اسی سال کے آخر میں سیکٹر انچارج ایم کیو ایم رحمان بھولا کو بیرون ملک سے گرفتار کر کے لایا گیا۔ رحمان بھولا نے مجسٹریٹ کے روبرو بیان میں کہا تھا کہ حماد صدیقی کے حکم پر اس نے زبیر چریا کو آگ لگانے کے لیے کہا تھا اس کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ رﺅف صدیقی نے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ ملزم عبدالرحمن بھولا نے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ رﺅف صدیقی اور حماد صدیقی نے متاثرین اور مالکان کے درمیان معاملہ حل کرنے کے لیے دباﺅ ڈالا اور سیٹیلمنٹ کے لیے فیکٹری مالکان سے چار، پانچ کروڑ روپے وصول کیے۔ایم کیوایم رہنما رﺅف صدیقی کا موقف تھا کہ واقعہ کے بعد انھوں نے وزارت سے استعفا دے دیا تھا اور یہ کہ فیکٹری مالکان اور رحمان بھولا نے سنی سنائی باتوں پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر سال متاثرین اس معاملے کی تحقیقات تیز کرنے کا مطالبہ کرتے ، حکومتی عہدیدار انہیں جلد انصاف فراہم کرنے کے وعدے کرتے اور پھر سب کچھ بھول جاتے۔جے آئی ٹی بنی تو اس کی رپورٹ کو دبا لیا گیا۔رواں برس عدالتی احکامات پر حکومت سندھ بلدیہ فیکٹری واقعے کی جے آئی ٹی منظر عام پر لائی۔ یہ جے آئی ٹی واقعے کے ڈھائی برس بعد یعنی جون 2015 میں بنائی گئی تھی اور تقریبا پانچ برس بعد اس کی رپورٹ منظر عام پر آئی۔صوبائی حکومت تاحال یہ وضاحت پیش نہیں کر سکی کہ اس نے اتنا عرصہ یہ رپورٹ کیوں متاثرین کو فراہم نہ کی۔اس جے آئی ٹی نے پولیس کیتفتیش پر بھی کئی سوالات اٹھائے اور کہا کہ تحقیق غیر پیشہ وارانہ طریقے سے کی گئی۔ ایف آئی آر ’بے ایمانی‘ سے دائر کی گئی اور اس میں اندرونی و بیرونی دباﺅ کا عمل دخل رہا جس نے ’دہشتگردی‘ کے واقعے کو ایک عام قتل کی شکل دی۔ سانحہ بلدیہ کے متعلق فیصلے پر بعض متاثرین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ممکن ہے متاثرین اور سزایا فتہ فریق ہائیکورٹ میں الگ الگ اپیل دائر کریں تاہم شہر کو بدمعاشی ،بھتہ خوری اور دہشت گردی سے رہا کرنے کے حوالے سے موجودہ فیصلہ اہم ہو گا، اس سے کم از کم یہ پیغام ضرور جائے گا کہ مجرم کتنا ہی بااثر ہو اسے آخر قانون کے سامنے جوبدہ ہونا پڑتا ہے۔ اس واقعہ کا دکھ اس لحاظ سے بڑھ جاتا ہے کہ پولیس اور حکومت نے مظلوموں کی بجائے ظالموں کو بچانے کی کوشش کی،اس طرز عمل میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here