”اردو زبان نہیں، ایک تہذیب کا نام ہے“

0
158
شمیم سیّد
شمیم سیّد

شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن

ایک زمانہ تھا جب بی بی سی کی نشریات بہت ذوق و شوق سے سُنی جاتی تھیں ،اردو سروس بی بی سی میں ایک ایسا نام جن کی آواز سنتے ہی ایک دل میں تراوٹ سی محسوس ہوتی تھی اور لگتا تھا کہ ہم یہیں کہیں کراچی میں رہتے ہیں اور اس خوبصورت آواز کی چاشنی ہمارے دلوں میں اردو زبان سے محبت کو جو تقویت بخش رہی تھی وہ اب بھی تروز تازہ ہے اور وہ آواز ہے جناب رضا علی عابدی کی جو گزشتہ پچاس سال سے بی بی سی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میرے بہنوئی کوثر لُطفی جو کراچی میں ہیں اور بہت ہی ادبی ذوق رکھتے ہیں اور ایسی محافلوں میں شرکت کرتے ہیں انہوں نے مجھے رضا علی عابدی کی آواز میں ایک ویڈیو بھیجی جو مجھے بے حد پسند آئی اور میں نے سوچا کہ میں بھی کچھ اپنے قارئین کو اردو کی خوبصورتی بیان کروں جو رضا علی عابدی نے اپنے خوبصورت الفاظوں میں مُقید کر دی ہے وہ پچاس سالوں سے لندن میں رہ رہے ہیں اور انہوں نے اردو کو ان دنوں انہوں جتنا قریب اور دھیان سے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ ارد وکسی زبان کا نام نہیں ہے یہ ایک تہذیب کا نام ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ زبان کا نام ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ تہذیب ہے۔ دنیا میں ہزاروں زبانیں ہیں اور اکثر کا نام سنتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ کس علاقہ کی کس خطہ کی زبان ہے کس ملک اور کس قومیت کی زبان ہے بے شمار زبانیں ہیں جن کے ساتھ کوئی نہ کوئی علاقہ وابستہ ہے۔ اردو کانام لیا جائے تو اس کےساتھ کوئی سرزمین، قوم اور کوئی علاقہ وابستہ نہیں ہے۔ جب انگریز ہندوستان آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ہر علاقہ کی ایک زبان ہے یہ ایک عجیب زبان ہے جو پورے ہندوستان میں بولی جاتی ہے جس کا کوئی نام نہیں ہے کیا نام ہونا چاہیے یہ مسئلہ ان کے سامنے بھی تھا وہ بجا طور پر اس فیصلہ پر پہنچے کہ اس کا نام ہندوستان کی مناسبت سے ہندوستانی ہونا چاہیے اور بہت عرصہ تک ہماری زبان جسے ہم اردو کہتے ہیں ہندوستانی کہلائی۔ اسی نام سے قدر ہوئی اسی نام سے ترویج و اشاعت ہوئی، اردو کتابت، اردو چھاپے خانے، طے شدہ منصوبے کے تحت مُرتب کئے گئے۔ اور اردو کے حُروف کی ترتیب کیسے کی جائے یہ تمام کام انگریزوں کے زمانے میں ہوئے۔ پھر طباعت شروع ہوئی، باغ و بہار، کلیات میر چھاپی، قرآن کا عبدالقادر دہلوی کا ترجمہ چھاپہ کیونکہ وہ نفیس اور سلیس اردو میں تھا۔ لہٰذا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اردو کسی زبان کا نام نہیں ہے یہ ایک تہذیب کا نام ہے۔ اور ایسی تہذیب جس میں بہت سے عوامل شامل ہوں۔ تمدن، تمیز، سلیقہ، قرینہ، رکھ رکھاﺅ، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، رشتے، مراسم، قُربتیں، رقابتیں، نزاکتیں، آسائشیں اور سب سے بڑھ کر عام زندگی کی بولی ٹھولی، بات چیت، لب و لہجہ، گفتگو کا اطوار، یہ سب چیزیں ہیں جسے ہم سب اُردو کہتے ہیں دراصل یہی وہ تہذیب ہے جس کو ہم اُردو کہتے ہیں۔ اُردو کی کانفرنس ہوتی ہیں اب ایک تہذیب کانفرنس بھی ہونی چاہیے جس میں وہ سارا رکھ رکھاﺅ کی نمائش ہو۔ وہ سب کچھ ہو جو اردو سے وابستہ ہے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ بہت آسان ہے اور یہ ہونا چاہیے اردو زبان کے بارے میں یہ کہتے ہوئے جی دُکھتا ہے کہ اس پر مشکل وقت پڑا ہے میں یہاں برطانیہ میں ہوں 60-62 میں لوگ یہاں بڑی تعداد میں آئے اور اپنے ساتھ اردو زبان لائے اردو روایات لائے اس کےساتھ اس نسل کےساتھ زبان رہی پھر مشکل وقت پڑا وہ نسل رفتہ رفتہ دنیا سے اُٹھتی رہی اب جہاں بچے ہیں نئی نسل ہے تیسری نسل ہے، انگریزوں کی طرح انگریزی بول رہی ہے، ان سے اردو نہیں بولی جا رہی بولتے ہیں تو تعمُل سے، تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے یہ وقت کےساتھ ہوتا ہے کوئی جبر نہیں ہے ہم نے بھی اپنے بچوں پر کوئی جبر نہیں کہ تم جیسے بھی بنو اردو بولو، اب صورتحال یہی ہے میرے اور میرے نسل کی تمام لوگوں کو ہم بچوں سے اردو بولتے ہیں وہ ہمیں انگریزی میں جواب دیتے ہیں انہیں یقین ہے کہ ہماری انگریزی وہ سمجھ لیں گے یہی بہت ہے کہ ہماری اردو ان کی سمجھ میں آجاتی ہے، یہ تمام چیزیں ہمارے سامنے ہیں دل چاہتا ہے کہ اردو کی نفاست اور اردو کی لطافت اور اس کا سلیقہ، رکھ رکھاﺅ کا احترام ہونا چاہیے، اردو بولنے میں ہم عجیب کارروائیاں کرنے لگے ہیں، مثال کے طور پر جی نہیں چاہتا کہ اس طرح کوئی اردو بولے جیسے آپ ہمارے گھر آﺅ، آپ ہمارے ساتھ کھانا کھاﺅ، کانوں کو بھلا نہیں لگتا۔ جو چیز کانوں کو بھلی نہ لگے وہ درست نہیں ہو سکتی۔ یہ طے شدہ اصول ہے آپ ہمارے گھر آئیے، آپ ہمارے ساتھ کھانا کھائیے، یہ ایک دم پورے ماحول پر شائستگی چھا جاتی ہے۔ ایک اور چیز ترک کرنے کی ضرورت ہے جیسے آپ یہ کام کریں، آپ صبح جلدی اُٹھا کریں آپ روز وزرش کیا کریں۔ نہیں آپ یہ کام کیا کیجئے، صبح جلدی اُٹھا کیجئے، روز ورزش کیا کیجئے۔ یہ آپ کیلئے بھی ہوگا اور ہماری چھوٹی سی نفیس کم عمر ابھی تو نو عمر ہے تین سو چار سو سال پرانی بھی نہیں ہوئی ہے، اس کے حق میں بہت اچھا ہوگا اردو کا احترام کیجئے اردو کو پیار سے پالئے، پوسیئے، بڑا کیجئے ابھی تو دنیا بہت آگے پڑی ہے۔ اردو آپ سے مطالبہ نہیں کرتی، فرمائش کرتی ہے کہ اس کی فراست اور نفاست کا خیال رکھا جائے آسان اردو بولیں، سُلجھی ہوئی اُردو لکھیں پیچیدہ جملے نہ لکھیں اور یہی آواز کانوں کو کتنی بھلی لگے گی۔ ہر ایک کہے گا چاہے وہ کسی بھی علاقے، قوم کا باشندہ ہو وہ یہی کہے گا کہ ہاں یہ ہماری زبان ہے اور یہ آخری تہذیب اردو کی یہ ہے کہ جب آپ سلام کریں اب تو لوگ کہنی سے کہنی ملا کر سلام کرنے لگے ہیں ہاتھ ملانا منع ہے لوگ ہاتھ جوڑ کر نمستے کہتے ہیں ہمارے زمانے کے لوگ ماتھے تک ہاتھ لے جا کر سلام کرتے تھے اور کتنا بھلا لگتا تھا۔ وہ کیوں ترک ہو گیا ساری دنیا کی قومیں ماتھے تک ہاتھ لے جا کر پریڈ کیا کرتی تھیں۔ ہمارا وہ طریقہ کیا ہوا؟خدارا اس کو واپس لاﺅ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here