حیدر علی
فلموں میں تو ہمیشہ یہی دکھایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ہاتھ میں انجکشن لئے مریض کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور مریض اُس کے قابو میں آ نہیں رہا اور اگر آگیا تو انجکشن کی سوئی اُس کے بازو میں گھستے ہی باپ رے باپ کی وہ چیخ بلند کرتا ہے کہ ہسپتال کے دوسرے مریض سہم جاتے ہیںبلکہ بعض تو کنی کٹاکر ڈاکٹر سے ملے بغیر ہی گھر واپس آجاتے ہیں، لوٹ کر گدھے گھر کو آئے لیکن زمانہ بدل گیا، اب لوگ کورونا ویکسین کیلئے مدتوں سے انتظار کر رہے ہیں، ڈاکٹر کے دفتر دِن میں دو مرتبہ کال کر رہے ہیںاور پوچھ رہے ہیں کہ ہاں جناب ڈاکٹر صاحب وہ کورونا کا ویکسین آگیا ؟
ڈاکٹر صاحب جواب دے رہے ہیں کہ نہیں جناب اب تک تو نہیں آیا ہے جب آئیگا تو اطلاع دے دونگا ویکسین کا شاٹ لگانے کے ساتھ ساتھ آپکا بلڈ پریشر ، گلے کی گلٹی ، سر کے درداور قبض کی شکایت کو بھی چیک کر لونگا۔ضرورت پڑی تو اسپیشلسٹ کے پاس بھی بھیج دونگا،مریض ضرور ضرور کہہ کر ٹیلیفون ہینگ اپ کر دیتا ہے، وہ نہیں جانتا کہ مریضوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کو بھی ویکسین کا انتظار ہے تاکہ اُن کے گلشن کا کاروبار چلے۔حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا کورونا ویکسین کا انتظار کر رہی ہے،حکومت عوام کو دلاسا دینے کیلئے اپنے وزیروں کو روزانہ یہ حکم دے رہی ہے کہ ویکسین رکھنے کیلئے فورا”کولڈ سٹوریج کا انتظام کریں ، اب وزیر اُنہیں کیا بتائے کہ کولڈ سٹوریج دو ماہ سے خالی پڑا ہے اور اب ایک تاجر جھینگا رکھنے کیلئے اُسے استعمال کر رہا ہے، ویکسین بنانے والی فارما سوٹیکل کمپنیاں وعدہ وعید کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اُن کی جانب سے ہر روز ایک نیا شوشہ میڈیا پر آجاتا ہے کہ ہاں جی ویکسین بن چکا ہے، ایسا ویکسین جسے لگانے کی بھی ضرورت نہیں ، بس ایک مرتبہ اُسے سونگھ لینے سے ہی کورونا وائرس ، فلو یا نزلہ زکام آپ کے قریب نہیں آئیگا، لیکن مال بنانے سے قبل ہمیں اُس ویکسین کی ایف ڈی اے سے منظوری لینی ہوگی ، جو ہم کر رہے ہیں، ہم ویکسین کو فوری طور پر مخصوص قسم کے ڈبے میں بند کر کے واشنگٹن روانہ کر رہے ہیں، وہاں بقراط سقراط اُسے کھولیں گے اور اُس پر طویل مقالہ تحریر کرینگے۔ گھبرا نے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ کی زندگی ہی میں آپ کو ویکسین شاٹ لگ جائے گا اگر خدانخواستہ آپ اِس دنیا سے سدھار گئے تو آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے کتے کو شاٹ لگا دیا جائے گا۔
جہاں ویکسین آنا تھی وہاں آچکی ہے، روس اور چین کی حکومتیں اپنے ملک کے عوام کو ویکسین لگا بھی چکی ہیں، جی ہاں ! وہی ویکسین جس کے شاٹ لگانے کے بعد انسان کورونا وائرس سے محفوظ رہتا ہے ، کوئی نلکے کا پانی نہیں جسے بعض اوقات دِل کے بہلانے کیلئے ڈاکٹر حضرات مریض کو لگا دیتے ہیں، اب روس اور چین کی حکومتیں اپنی ایجاد کو غیر ممالک میں فروخت کر رہی ہیں جو ممالک روس یا چین کے دوست تھے، اُنہیں بھی یہ باور کرایا جارہا ہے کہ بھائی صاحب یہ کوئی مفت کا مال نہیں، یہ ہمارا بزنس ہے بزنس ہے ، آپ فی الحال دوستی کو بھول جائیں اور اگر اپنے ملک کے عوام کو ویکسین لگانا چاہتے ہیں تو 300 یا 400 ملین ڈالر کی رقم ادا کریں اور ویکسین اپنے گھر لے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پہلے چینی یا روسی حکومت کورونا وائرس کے مرض کو پھیلاتیں ہیں اور پھر اِس کے بچا¶ کیلئے ویکسین کو بھاری رقوم میں غیر ممالک کو فروخت کرتیں ہیں، ایک اندازے کے مطابق اگر پاکستان کے ہر شخص کو ویکسین لگایا جائے تو بین الاقوامی منڈی میں اِس کی لاگت تقریبا”نصف بلین ڈالر آئیگی۔ دنیا کے تقریبا “ہر ترقی یافتہ ملک نے کورونا وائرس کے ویکسین کو بنانے کیلئے آج سے آٹھ ماہ قبل کام شروع کردیا تھا لیکن پاکستان کی حکومت اِس عرصہ دراز میں اِس انتظار میں بیٹھی تھی کہ اِسے ویکسین بنانا چاہئے یا برصغیر کے عظیم جادوگر کے جادو ٹونا اور جھاڑو کے مار سے ہی مریض کا بخار دور کردینا چاہئے، پاکستان کے حکیموں نے جوشاندہ سے بھی وائرس کو دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، پاکستان کی حکومت کو اِس بات کی بھی امید تھی کہ اُسے کہیں نہ کہیں سے کورونا وائرس کا ویکسین بطور امداد مل جائیگا اگر چین نہیں تو سومالیہ ، اگر سومالیہ نہیں تو یوگنڈا کی حکومت اُسے عنایت کردے گیایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے قریبی دوست چین نے بھی اُسے لال جھنڈی دکھلادی ہے۔
اِنہیں وجوہات کے مدنظر گذشتہ کل یعنی 24 نومبر کے دِن وزیر اعظم عمران خان نے ایک خط اپنی وزارت صحت کو بھیجاہے جس میں اُنہوں نے درخواست کی ہے کہ پاکستان میں بھی کورونا وائرس کا ویکسین بنایا جائے، ویکسین کار آمد ثابت ہو یا نہ ہو اُسے شیشی میں رکھ کر ٹی وی پر دکھا دیا جائے ، جیسا کہ ماضی میں تیل کو بوتل میں رکھ پاکستان کے عوام کو یہ خوشخبری سنا دی گئی تھی کہ پاکستان میں بھی تیل نکل آیا ہے، بعد میں پتا چلا کہ وہ تیل نہیں پانی تھا۔ پاکستان کی وزارت صحت وزیراعظم کو اُن کے خط کا جواب تو ضرور دے گی لیکن اُنہیں واضح طور پر یہ مطلع کر دیا جائیگا کہ ویکسین بنانے کیلئے جو کیمیائی اجزا کی ضرورت پڑے گی وہ ہمیں امریکا سے ، اُسے رکھنے کیلئے شیشیوںکو ہانگ کانگ سے درآمد کرنا پڑیں گی اور پھر ایسا نہ ہو کہ جعلی ویکسین مارکیٹ میں فی کس پچاس روپے میں فروخت ہونا شروع ہوجائے ، قطع نظر وسوسوں اور حوصلہ فرسا خبروں کے یہ توقع یقینی طور پر کی جارہی ہے کہ امریکا میں آئندہ ہفتے ایف ڈی اے ویکسین کی منظوری دے دیگی اور اِس کے ڈسٹری بیوشن کا کام شروع ہوجائیگا،ہم امریکا میں مقیم پاکستانی تو اِس احتیاطی علاج سے تو فیضیاب ہوجائینگے لیکن ہمارے پاکستانی بھائی بلا تعطل اِس مرض کا شکار اور ایک خوفناک احساسات میں مبتلا رہیں گے،آخر پاکستان میں کب ویکسین دستیاب ہوگی؟