حیدر علی
روزنامہ جنگ کا معیار پہلے ہی سے رو بہ زوال ہے، خبریں مفقود ہوا کرتیں ہیں، پہلے صفحہ میں اشتہارات کی لائن لگی ہوتی ہے، دوسرے سے دسویں صفحہ تک اشتہارات ہی اشتہارات ہی ہوا کرتے ہیں ، قارئین کسی خبر کو تلاش کرتے کرتے تنگ آجاتے ہیں اور پھر غصے میں آکر گالی نکالتے ہوے اخبار کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ روزنامہ جنگ دنیا کا وہ واحد اخبار ہے جو لوگوں کو خبریں مہیا کرنے کے بجائے لوگ اُسے خبریں فراہم کرتے ہیں، میں نے کتنے لوگوں کو کراچی میں یہ کہتے ہوے سنا ہے کہ شاہراہ فیصل پر ایک تیز رفتار بس سائڈ واک پر چڑھ گئی جس سے چار راہگیر ہلاک ہوگئے لیکن جنگ اخبار میںاُس خبر کے بارے میں کوئی نام و نشان تک نہ تھا،میںنے لوگوں سے کہا کہ ذرا سا اخبار کے دفتر فون کرکے اُنہیں مطلع کر دیجئے،دفتر سے جواب آتا ہے کہ دراصل اُس علاقے کے رپورٹر کے منّی کی سالگرہ تھی، اِسلئے وہ اپنے فرائض انجام نہ دے سکا آپ ہمیشہ ہمیں کال کرکے اطلاع دے دیا کیجئےیہ لیجئے تنخواہ لے کوئی اور ، اور کام کریں صلّو کے دادا اور پھر جنگ اخبار کے خلاف شکایتوں کا انبار لگا ہوا ہے، لوگ چیختے ہوئے کہتے ہیں کہ نلکے سے پانی غائب ہے لیکن پانی کا ٹینک پانچ ہزار سے دس ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے لیکن جنگ اخبار اِس دِن دھاڑے ڈکیتی کی واردات پر اپنی آنکھیں بندکئے ہوے ہے کیونکہ میر شکیل الرحمن کو خطرہ لاحق ہے کہ کہیں اُنکا پانی بھی بند نہ ہوجائے ، دراصل مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ روزنامہ جنگ کے سارے رپورٹر، خلاصی، چپڑاسی سب کے سب اینکر پرسن بن گئے ہیں، وہ بیٹھک لگا کر صرف فضول باتیں کرنے کو اپنا شغل بنا لیا ہے، جنگ کے مالک میر شکیل الرحمن بھی اُن کے اِس روئیے سے خوش ہیں کیونکہ وہ اِن بھتہ خوروں کے گینگ کو صوبائی اور مرکزی حکومت کے خلاف استعمال کر سکتے ہیںیہی وجہ ہے کہ کتنے مواقع پر میر شکیل الرحمن کو عدالت نے بینک کی اربوں روپے کے قرض کی رقم واپس کرنے کا حکم دیا لیکن وہ سب کی سب عدالتی کاروائیاں ٹائیں ٹائیں فِش ہوکر رہ گئیں ،نہ ہی میر شکیل الرحمن کی کوئی جائداد ضبط ہوئی اور نہ ہی اُن کی جیب سے کوئی رقم نکالی جاسکی لہٰذا جو لوگ میر شکیل الرحمن کو مافیا کے لقب سے گردانتے ہیں ، وہ بلاشبہ ٹھیک ہی ہیں،کیا میر شکیل الرحمن میں اتنی اخلاقی جرا¿ت ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو بتائیں کہ اُنہوں نے کتنی مرتبہ بینکوں سے اپنے قرض کی رقمیں معاف کروائی ہیںاور تاہنوز کتنی رقم اُن پر واجب الادا ہے؟
جب سے میرشکیل الرحمن اندر ہوے ہیں اُن کے اخبار کے کالم نگاروں نے اُن کی قصیدہ خوانی کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ٹھان لی ہے ، نامی گرامی کالم نگار جن سے اُن کے قارئین حق و صداقت کی توقع لگائے بیٹھے تھے ، جھوٹ اور صحافتی دیانتداری کی دھجیاں اُڑاکر رکھ دی ہیں، عطاءالحق قاسمی نے میر شکیل الرحمن کو اپنے کالم میں صحافت کا مرد مجاہد قرار دیتے ہوے تحریر کیا ہے کہ اُنہیں پابجولاں جیل کی ایک تنگ و تاریک سیل میں دھکیل دیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عطاءالحق صاحب کی بینائی انتہائی کمزور ہو کر رہ گئی ہے، کیا اُنہوں نے جیل کے اندر اپنے باس کی تصویر نہیں دیکھی، جس کے کمرے میں اتنی روشنی تھی کہ اُنہیں ایک فرلانگ سے بھی دیکھا جاسکتا تھااور وہ جیل کے اُسی سیل سے اِس طرح بیانات پر بیانات دے رہے تھے ، جیسے معلوم ہورہا تھا کہ وہ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں قیام پذیر ہیں،حامد میرجو حکومت پاکستان کے سرٹیفائیڈ غدار ہیں اپنے کالم میں تحریر کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف سب سے زیادہ آواز جیو نیوز اور جنگ نے بلند کی، حامد میر یہ فراموش کر گئے کہ یہ جیو چینل ہی تھا جس نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے نقشے میں بھارت کا حصہ دکھلایا تھا۔ طالبان کے سابقہ ترجمان عرفان صدیقی جنہیں میر شکیل الرحمن نے کالم نگاری سے بر طرف کردیا تھا ، اپنی ساکھ کو دوبارہ بحال کرتے ہوے تحریر کیا ہے کہ میر شکیل الرحمن اپنی اسیری کے دوران اپنی یادداشت پر مبنی پاکستان کی سیاست پر ایک کتاب تحریر کریں،کیا عرفان صدیقی یہ چاہتے ہیں کہ میر شکیل الرحمن جیل میں سالوں سال مقید رہیں؟ کیا اُنہیں کوئی اور کام کاج نہیں رہ گیا ہے، کیا اُن کی گرل فرینڈز دبئی یا منیلا میں اُن کا شدت سے انتظار نہیں کر رہی ہیں؟
بہر نوع تازہ ترین صورتحال میں روزنامہ جنگ کا حلیہ اور بھی بگڑ گیا ہے، جنگ کی خبریں، جنگ کے کالم، جنگ کا اداریہ سب کے سب میر شکیل الرحمن کے محور میں گردش کر رہا ہے، جنگ کا پہلا صفحہ جو پہلے تین حصوں میں اشتہار اور ایک حصے میں خبروں پر مشتمل ہوتا تھا، اب چاروں حصہ صرف اور صرف
میر شکیل الرحمن کی صفائی پیش کرنے کیلئے وقف کردیا گیا ہے۔صفائی کو نیلے اور سرخ رنگ سے پالش کی گئی ہے، تاکہ قارئین اخبار کو اُلو بنایا جاسکےمیر شکیل الرحمن کا اوّلا” یہ موقف ہے کہ لاہور میں 180 کنال زمین اُن کی ملکیت ہے اور جو اُنہوں نے مرحوم محمد علی سے خریدی تھی، لیکن اُن کے پاس اِس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ وہ زمین مرحوم محمد علی کے پاس کہاں سے آئی تھی عموما”زمین کی جعلی لین دین میں فرضی مالک گڑھ دیئے جاتے ہیں، دوئم یہ کہ اُنہوں نے لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو مذکورہ زمین پر صحافیوں کیلئے مکان بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن اپنی زبان کی خلاف ورزی کرتے ہوے اُنہوں نے پانچ پانچ ہزار گز کے اُن پلاٹوں کو اپنے چار بیٹوں ، تین بیٹیوں اور ماموں جانوں کے مابین تقسیم کر دیا تھا، کیا صحافت کی امامت کا یہی طرہ امتیاز ہوتا ہے؟