بھارت کے صوبے گجرات کے شہر موربل میں پُل کے گر نے کا جو حادثہ ظہور پذیر ہوا وہ نہ صرف بھارت کی نام نہاد ترقی کے پروپگنڈے ، سرکاری اہلکاروں کی حرص و لالچ کی انتہا پسندی کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے بلکہ مذکورہ پُل کے گرنے کے ساتھ ہی وزیراعظم نریندر مودی کی مقبولیت بھی زمین بوس ہوگئی اور وہ جہاں بھی دورے پر گئے وہاں اُنہیں ” گو بیک مودی کے نعروں سے خیر مقدم کیا گیا”،بھارت کی غلامانہ کلچر بھی نظارہ پیش کر رہی تھی، ایک جانب لوگوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی وہ ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں اپنے پیاروں کی لاشیں تلاش کر رہے تھے تو دوسری جانب اُسی ہسپتال کی دیواروں کو پینٹ کیا جارہا تھا، کیونکہ وہاں وزیراعظم نریندر مودی پُل کے گرنے کے زخمیوں کی عیادت کیلئے آنے والے تھے۔
گجرات کے شہر موربل میں پُل گرنے کا حادثہ گذشتہ اتوار کی شام یعنی 30 اکتوبر کے دِن پیش آیا جس میں 150 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر وہ محنت کش تھے جو بھارت کے پسماندہ علاقوں سے موربل کے صنعتی علاقوں میں روزی کمانے آئے تھے۔ اُن میں بنگال کا حبیب الشیخ بھی تھا جو ٹرین کے ذریعہ کلکتہ سے موربل آیا تھا، جہاں اُسے جیولری بنانے کی ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی تھی جس سے اُسے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ وہ ایک کمرے کے ایک کونے میں 10 دسرے لوگوں کے ساتھ سر چھپاسکے۔ باقیماندہ رقم وہ اپنے گھر کی کفالت کیلئے بھیج دیتا تھا۔ حبیب کے والد نے بتایا کہ وہی اُن کی زندگی کا آخری سہارا تھا۔ پولیس اور سرکاری اہلکار اِس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ کس طرح موربل شہر کے ایک گھڑی ساز اور گھریلو استعمال کے الیکٹرانکس سامان بنانے والی کمپنی کو ” جھولتا پُل” کی مرمت سازی اور آپریٹ کرنے کا سرکاری ٹھیکہ مل گیا تھا؟ یہ پُل ایک صدی قبل انگریز راج کے دور میںتعمیر کیا گیا تھا جو صرف پیدل چلنے والوں کیلئے مخصوص تھا۔مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ اُسی کمپنی کے مالک مسٹر پٹیل نے چار دِن قبل اُس پُل کی افتتاحی تقریب کی تھی اور دو دِن قبل اُس نے شیخی بگھارتے ہوے کہا تھا کہ اب یہ پُل 15 سال تک بغیر کسی چون و چرا کے چلے گا۔ اُس نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ لوگوں کے رش کو قابو میں رکھنے کیلئے اُس کی کمپنی نے داخلے کی فیس بڑھاکر 200 روپے کردی ہے۔چاہے آپ جو بھی کہیں اِس پُل کے گرنے سے بھارت کے وقار کو زبردست دھچکہ پہنچا ہے ۔ بھارت ناقص مشینری ، فضول پُرزے جات اورناکارہ الیکٹرانکس کا سامان بنانے کیلئے دنیا بھر میں بدنام ہوچکا ہے۔ جب یہ پُل منہدم ہوا تھا تو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی با نفس نفیس گجرات میں تھے اور جو سب سے پہلے اُنہوں نے حکم صادر کیا وہ یہ تھا کہ اِس کی خبر کو اندرونی اور بیرونی ممالک میں پھیلنے سے روکا جائے۔ لہذا بنگلہ دیش اور پاکستان میں پُل کے گرنے کی خبر کا بلیک آؤٹ کیا گیا تھا جو ایک حیران کُن کاروائی تھی۔ لیکن نیویارک ٹائمز نے اِس خبر کی سرخی کئی دنوں تک لگائی رکھی اور اپنے نمائندوں کو بھی جائے واردات پر روانہ کیا تھا۔ پُل گرنے کا سانحہ وزیراعظم مودی کیلئے ایک نئے طوفان کا پیش خیمہ بن گیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اسے حکومت کی نااہلی کی ایک منھ بولتی تصویر قرار دے رہی ہیں۔ خصوصی طور پر عام آدمی پارٹی جو گجرات کے صوبے میں نریندر مودی کی جماعت سے سر سے سر ٹکرارہی ہے اِس حادثہ کو خدا کی نعمت سمجھا ہے۔
گجرات کی حکومت کا یہ موقف ہے کہ پُل کو دوبارہ کھولنے سے قبل اُس کی سیفٹی کا اجازت نامہ نہیں لیا گیا تھا جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جس جوش و خروش سے پُل کی افتتاحی تقریب انجام پائی تھی جس سے بچہ بچہ بھی آگاہ ہوگیا تھا اُس کے بعد یہ کہنا محض لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی مترادف ہے۔اکتوبر کو سانحات کا مہینہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بھارت میں پُل گرنے کی واردات سے صرف دو دِن قبل جنوبی کوریا کے دارلحکومت سیئول میں ہیلووین کے اجتماع میں بھگڈر مچ جانے کی وجہ کر
151افراد ہلاک ہوگئے ۔ اِس سانحہ کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ شہر کی ایک تنگ گلی میں جہاں 50 ہزار
افراد کے کھڑے ہونے کی گنجائش تھی وہاں ایک لاکھ سے زائد افراد جمع ہوگئے تھے۔ اور کسی طرح دھکم دھکے کی ابتدا ہوگئی اور کورین ایک دوسرے کو روندتے ہوے گلی سے باہر نکلنے کی کوششیں شروع کردیں۔
ایسی واردات ایسے ہی ملک میں عموما”رونما ہوتی ہیں جہاں کے لوگ انتہائی زیادہ خود غرض ہوتے ہیں اور دوسروں کی زندگی کا اُنہیں ذرا برابر بھی احساس نہیں ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ امریکا جہاں ہر دوسرے دِن لاکھوں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اِس طرح کے حادثات سے پاک و صاف ہے۔ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش اِس ضمن میں انتہائی حساس ہیں۔
بھگدڑ مچ جانے کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ ہیلووین کے اجتماع کا کوئی منتظم نہیں تھا اور پولیس والوں کو بھی اتنے لوگوں کے جمع ہونے کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ پولیس والے صرف ہاکر ز، پاکٹ مار اور شرپسندوں کو کنٹرول میں رکھنے میں مصروف تھی لیکن لوگوں کے جم غفیر کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا تھا۔ متعدد افراد نے بھگدڑ مچ جانے کی ایمرجنسی نمبر پر اطلاع بھی دی تھی لیکن پولیس کا ریسپانس نہ ہونے کے برابر تھا۔