نازک حالات اور مفاد پرست سیاست!!!

0
166
شمیم سیّد
شمیم سیّد

شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن

ملک میں کرونا سے متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو تقریباً 900 ہو چکی ہے،پنجاب میں کرونا کے شکار افراد کی تعداد بڑھ کر265اور سندھ میں تقریباً 394 ہو گئی ہے لیکن اس تشویشناک صورتحال کے باوجود کرونا کے نام پر بھی سیاست ہو رہی ہے۔ اتوار کو وزیر اعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے صوبے میں 15دن کے لیے لاک ڈاﺅن کا اعلان کر دیا جس کے تحت میڈیکل سٹورز اور اشیائے ضروری کے پوائنٹس کے سوا سب کچھ بند ہو گا۔ اتوار کے روزغالباً یہ خبر جب خان صاحب کوملی توانہوں نے حکومت سندھ کے اس فیصلے کے اعلان سے قبل ہی قوم سے خطاب کر دیا۔ ہمارے ہاں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ خان صاحب سمیت حکمران شام کے وقت ہی قوم سے خطاب کرتے ہیں لیکن اس سلسلے میں کیا ایمرجنسی تھی کہ دوپہر کا وقت چنا گیا۔ دیر آید درست آید پنجاب میں لاک ڈاﺅن کر دیا گیاہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پیر کو کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں صوبے میں 14دن کے لیے جزوی لاک ڈاﺅن کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ڈبل سواری پر پابندی لگا دی، تاہم اشیائے خورو نوش کی منڈیاں اور روزمرہ کی ضروریات زندگی کے لیے سٹورز کھلے رہیں گے، اس موقع پر انہوں نے واضح کیا یہ کوئی کرفیو یا لاک ڈاﺅن نہیں ہے۔اگر یہ لاک ڈاﺅن نہیں تو فوج کس مقصد کیلئے طلب کی گئی ہے۔نہ جانے کیوں حکمران اتنے سنگین بحران کے باوجودناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دے رہے۔ کرونا وائرس نے پوری دنیاکو لپیٹ میں لے رکھا ہے اور کئی ممالک انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن اٹلی کی مدد کو آگئے ہیں اور کیوبا نے بھی وہاں ڈاکٹر بھیجنے کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری طرف بھارت میں بھی کرونا کے خطرے کے پیش نظر دارالحکومت دلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے کرفیو لگا دیا ہے، اس کے برعکس ہمارے وزیراعظم بضد ہیں کہ میں لاک ڈاﺅن نہیں کروں گا حالانکہ انہیں چاہیے وہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو سکائپ پر آن لائن لیں اور پورے ملک کے لیے ایک مربوط پالیسی کا اعلان کریں۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی لاک ڈاﺅن کا مشورہ دے رہی ہے، اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف، سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت اپوزیشن کے تمام رہنما بیک زبان ہیں کہ لاک ڈاﺅن کیا جانا چاہیے۔ بلاول بھٹو نے شہبازشریف سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی تجویز دی ہے۔ قوم سے خطاب میںخان صاحب کا کہنا تھا کہ مکمل لاک ڈاﺅن کیا تو پچیس فیصد غر یب بھوکے رہ جا ئیں گے۔
موجودہ گو مگو کی صورتحال میں ملک کی باقی 75فیصد آبادی کا بھی کیا بھلا ہے۔ یہ جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ کرونا وائرس کے اثرات سے غریب تو پہلے ہی پس رہا ہے۔ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ ہم لاک ڈاﺅن کے حق میں نہیں ہیں اگرایساہی ہے تو رینجرز جو وفاقی حکومت کے تحت ہے کیونکر سندھ حکومت کو فراہم کی گئی۔ غالباً حکومت کا موقف یہ ہو گا کہ اس نازک مرحلے پر سندھ حکومت سے کسی بھی معاملے میں عدم تعاون نہ کیا جائے لیکن دوسری طرف قومی ائر لائن پی آئی اے کو انٹرنیشنل فلائٹس کے علاوہ اندرون ملک پرواز کے لیے بھی بند کردیا گیا ہے یہ شٹ ڈاﺅن نہیں تو کیا ہے؟۔کراچی اور لاہور کے درمیان ٹرین سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ تو پہلے ہی بند ہے گویا کہ چاروں صوبوں کو قریباًایک دوسرے سے کاٹ دیا گیا ہے۔
فلائٹس بند ہونے کے ساتھ ساتھ ریلوے سٹیشنز اور ٹرینوں پر اتنا رش ہو گیا تھا کہکرونا کے حوالے سے ایک دوسر ے سے مناسب فاصلہ رکھنے کے اصول کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم نے یہ جوازپیش کیا ہے کہ لاک ڈاﺅن سے ذرائع نقل وحمل میں رکاوٹیں آئیں گی، مارکیٹیں بند ہونے سے اشیائے خورونوش کی قلت جیسے مسائل پیداہونگے لیکن ایسا تو ہو رہا ہے۔ جہاں تک لوگوں کو کھانا پہنچانے کا تعلق ہے تو ماضی میں لوگوں کے ایثار اور قربانی کی لازوال مثالیں موجود ہیں۔
2005ءمیں قیامت خیز زلزلے سے ہونے والی تباہی میں مخیر حضرات، فلاحی تنظیموں اورمذہبی وسیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کی بھرپور مدد کی تھی۔ اس زلزے میں ستر ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے لیکن قوم نے اس بحران کا بڑے احسن طریقے سے مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت حالانکہ ملک میں جنرل پرویز مشرف کی آمریت تھی لیکن مشرف نے لیڈرشپ کا رول بخوبی ادا کیا۔ آج یہ بات شاید معمولی لگتی ہو کہ اس حادثے میں مظفر آباد اور بالاکوٹ جیسے شہر زمین بوس ہو گئے،، اس موقع پر متاثرین کی بھر پور مالی مد د بھی کی گئی تھی، زمین بوس شہر اب پھر آبادہو چکے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے ) بھی جنرل پرویز مشرف کے دور میں بحرانوں سے نمٹنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اس کی باقاعد ہ بنیاد 2007ء میں رکھی گئی تھی۔ لیکن زلزلے کے فوری بعد لیفٹیننٹ جنرل فاروق خان کو 2006ءمیں ہی اس کا سربراہ مقرر کردیا گیا تھا۔ آج ملک میں ماشاءاللہ کہنے کو تو جمہوریت ہے لیکن لیڈر شپ کا فقدان نظر آرہا ہے۔ اتوار کو کورکمانڈرزکاخصوصی اجلاس بھی بلایا گیا جس میںکروناوبا پر قابو پانے کے لیے سول انتظامیہ کی معاونت کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ فوج کو پہلے ہی سول انتظامیہ کی مد د کے لیے طلب کیا جاچکا ہے لیکن حکومت کو پاک فوج کو بھرپور رول اد ا کرنے کے لیے بروئے کار لانا چاہیے۔
23مارچ یوم پاکستان ایک اچھا موقع تھا کہ وزیر اعظم عمران خان قوم سے خطاب کر کے یکجہتی کا پیغام دیتے ہوئے اقدامات کا اعلان کرتے۔ مزید برآں ملک میں قریباً دو برس سے چلنے والی تقسیم کی سیاست کو خیرباد کہہ کر تمام صوبوں اور تمام جماعتوں کو آن بورڈ لینا چا ہیے، اسے لیڈرشپ کہتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل نے ایک نجی چینل پر زارو قطار روتے ہوئے اجتماعی دعا کرائی، انہوں نے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کی سلامتی کے لیے بھی دعا کی۔ مولانا نجیب الطرفین قسم کے عالم ہیں اور ہر حکمران سے قربت رکھتے ہیں۔ میری ان سے پہلی ملاقا ت چودھری پرویز الٰہی کے والد چودھری منظور الٰہی کی نماز جنازہ پرہوئی تھی، اس وقت پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائی تھی، وہ میاںنواز شریف کی گاڑی میں سوار ہو کر امامت کے لیے آئے تھے۔ چند روز قبل ان کی وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ میاں شہباز شریف نے ویڈیو لنک پریس کانفرنس میں وزیراعظم سے گزارش کی کہ وہ فی الفور مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کریں اور چاروں وزرائے اعلیٰ ان کے ساتھ بھرپور شراکت داری کریں، انہوں نے کچھ مثبت تجاویز بھی دی ہیں۔ شہبازشریف نے شرح سود میں 3 سے 4فیصد تک کمی کی بھی تجویز پیش کی اور کہا اس سے حکومت کو فائدہ یہ ہو گا کہ قرضے کی مدد میں 80ارب کی بچت ہو گی، جسے عوام پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
شہباز شریف نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 70روپے لٹر تک کمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا اس سے عام آدمی کو فائدہ ہو گا اور حکومت کو کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں۔ شہبازشریف نے حکومت سے مطالبہ کیا جن گھرانوں میں بجلی کا بل 5ہزار اور گیس کا بل 2ہزار روپے آتا ہے وہ آج یہ بل دینے کے قابل نہیں ہیں لہٰذا ان کی ادائیگی کو ملتوی کردیں۔ بجائے اس بات پر چیں بچیں ہونے کے یہ کون کہہ رہا ہے، سیاست سے بالا تر ہو کر حکومت کو ان تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے بالخصوص مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس فوری بلانا وقت کی ضرورت ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here