رعنا کوثر
انسان کو اشرف المخلوقات اسی لیے بنایا گیا ہے کے اس کے اندر دوسری مخلوقات کے مقابلے میں سوچنے، سمجھنے اور غورو فکر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور یہی خصوصیت اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔اگر وہ اپنے پیدا ہونے کے مقصد پر غور کرے یہ سوچے کے اسے دنیا میں اچھے کام کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔دوسروں کو تنگ کرنے اور ان پر کیچڑ اچھالنے کے لیے نہیں کسی مغرب دنیا بہت تیز رفتار دنیا ہے یہاں آزادی بھی ہے روپیہ پیسہ بھی اور برائیاں کرنے کے بہت زیادہ ذرائع اور مواقع ہیں۔یہاں رہنے بسنے والے اگر برائی سے دو رہتے ہیں اور نیکی کا ایک چراغ بھی جلاتے ہیں تو یہ ان کے غوروفکر کرنے کی صلاحیت ہی ہے۔اپنے آپ کو برائیوں سے دور کرکے اچھائیوں کی طرف لانا اور اپنی بقاءکی جنگ خود لڑنا ہی ایک جہاد ہے اور یہی کامیابی کا راستہ ہے جیسے اگر کوئی چنتا ہے تو اس کا مطلب ہے کے اس نے عقل سے کام لیااور اپنی صلاحیت پر بھروسہ کیا ۔ہمارے جیسے بہت سارے مسلمان اس ملک میں آباد ہیں وہ یہاں کی برائیوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں نکتہ چینی کرتے ہیں مگر اس وقت گھبرا جاتے ہیں جب ان کے ساتھ وہی واقعات ہونا شروع ہوجاتے ہیں جس کے لیے وہ دوسروں پر انگلیاں اٹھا رہے تھے کیونکہ ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کے ہم جس ملک میں آباد ہیں وہاں کی برائی ہمارے گھر کا راستہ بھی دیکھ سکتی ہے۔ہم کو یہی سوچ کر محتاط رہنا چاہئے اور دوسروں پر انگلی اٹھانے کی بجائے اچھائی کی ابتدا اپنے گھر سے کرنا چاہئے۔ایک امریکہ میں بسنے والے مسلمان بھائی سے ملاقات ہوئی جو کے کسی امریکن فیملی سے تعلق رکھتا ہے اس نے بتایا کہ اس نے اور اس کی بیوی نے اب سے بارہ تیرہ سال پہلے اسلام کا راستہ اپنایا اور کلمہ پڑھا۔اس نے اپنے خاندان میں کائی برائیاں دیکھیں اس کی بہن چودہ سال کی عمر میں ایک بچے کی ماں بن گئی۔اس کے ماں باپ میں علیحدگی رہی اس کے نانا ،نانی میں علیحدگی رہی۔اس نے بچوں کو خاندان کے بزرگوں کی عزت کرتے نہیں دیکھا۔اس نے یہ سب برائیاں دیکھ کر ان برائیوں پر انگلی اٹھانے کی جگہ غوروفکر کا راستہ اپنایا۔اس نے غوروفکر کیا اور پھر مسلمان بنا۔آج اس کی دو بچیاں ہیں وہ اور اس کی بیوی ان بچوں کو یہ سوچ کر اچھی تربیت دے رہے ہیں۔کے کل یہی بچیاں بہت ساری برائیاں دور کریں گی اور ان کو دیکھ کر لوگ اچھا راستہ اپنائیں گے۔حالانکہ راہ میں بہت مشکلات ہیں وہ اور اس کی بیوی دونوں خاندان سے کٹ گئے ہیں۔کوئی بھی ان کے اس اقدام کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ جب بھی بچوں کو اچھی تربیت دینے کے لیے روک ٹوک کرتے ہیں خاندان کا دباﺅ بڑھ جاتا ہے وہ سب کو بہت عجیب اور قدامت پسند لگتے ہیں۔مگر اس کا کہنا ہے کے بے شک یہ چیزیں دکھ دیتی ہیں مگر یہ دکھ اس دکھ سے کم ہے جہاں آپ کی چھوٹی سی بیٹی غلط راہ پر پلی جاتی ہے یا آپ کا بیٹا گمراہ ہو جاتا ہے۔آپ کے بچے آپ کی عزت نہیں کرتے۔گالیاں دیتے ہیں منہ زوری کرتے ہیں۔شراب پیتے ہیں ڈرگ لیتے ہیں آپ کے پیسے چھینتے ہیں یہ وہ دکھ ہیں جہاں انسانیت ختم ہو جاتی ہے سب لوگ اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی اپنے رتبے سے کم ہوجاتے ہیں۔جانوروں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اس کا کہنا ہے کے ایسے حالات میں زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے آپ کو سدھار لیں اور اپنے آپ کو صحیح راستہ دکھائیں اپنے بچوں کو صحیح راستہ دکھائیں یہی ہماری ذمہ داری ہے کے ہم اپنے خاندان کو درست کرلیں۔اگر سب لوگ دوسروں کی زندگی اور ان کے حالات پر نظر رکھنے کی بجائے اپنے حالات پر نظر رکھ کر چراغ جلانا چاہیں تو روشنی ضرور ملتی ہے۔
٭٭٭