جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
عوام کو Covid-18 سے Covid-19 کے مقابلے میں زیادہ خطرہ ہے۔ کرونا بہت سمجھدار ہے، حکومت کی تقریبات میں، اجتماعات میں، جماعت اسلامی کے جلسوں میں اثرات نہیں جاتے واپس مُڑ جاتے ہیں۔ PDM کے جلسوں میں جا کر لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، یہ ہیں وہ جملے جو مریم نواز اور ان کے حواریوں کا معمول بن چکے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی ترجمان اور خود کپتان کے پاس ایک ہی منترا ہے، یہ لوگ اپنی کرپشن پر NRO کیلئے لوگوں کو کرونا سے متاثر کرنے اور ہلاکتوں پر آمادہ ہیں، الزام در الزام، زبان درازی اور نفرت آمیز جملے بازیوں کا ایک طوفان ہے جو چینلز پر بیٹھ کر اُٹھایا جاتا ہے، میڈیا کی اکثریت حکومت نواز اور اپوزیشن نواز اینکرز، مبصرین اور تجزیہ کاروں میں بٹی ہوئی بُھس میں چنگاری ڈالنے کے کام میں اپنا حصہ ڈالتی ہے، پاکستان کو دیگر اقوام عالم کی طرح کرونا کی دوسری لہر نے شدید طور سے متاثر کیا ہے اور پہلی لہر کے برعکس متاثرین اور لقمہ اجل بننے والوں کی تعداد انتہائی حدوں کو چُھو رہی ہے۔
حکومت نے پہلی لہر کامقابلہ جس کامیابی سے کیا تھا، اس کی تعریف تمام دنیا میں ہوئی۔ اقوام متحدہ، ڈبلیو ایچ او، امریکی تھنک ٹینکس، غرض ہر جانب سے اس کی تعریف کی گئی۔ ورلڈ اکنامک فورم نے تو اس حوالے سے ایک دن پاکستان کے نام کیا اور وزیراعظم نے کرونا کے ریفرنس سے خصوصی خطاب کیا۔ یقیناً یہ پاکستان کیلئے بڑا اعزاز ہے۔ دوسری طرف اس وباءپر اپوزیشن خصوصاً لٹیروں کا سیاسی ٹولا اپنی سیاست کے مفاد میں عوام پر اس کے شدید اثرات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ جلسے، جلوسوں اور ریلیوں سے اپنے مفادات کے تناظر میں لوگوں کو بلا احتیاطی تدابیر جمع کرتے اور کرونا کی ہولناکیوں میں شدت کی وجہ بن رہے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ خود اپنے گھروں میں ہونےوالے اجتماعات میں ان احتیاطوں پر سختی کروائی جاتی ہے جس کی مثال بختاور کی منگنی اور مرحومہ شمیم اختر کی تدفین و سوئم ہے۔ گوجرانوالہ سے ملتان تک ہونےوالے جلسوں میں ہزاروں لوگوں کو کرونا کے خدشات سے دو چار کرنے والے ان سیاسی پنڈتوں کا یہ دوغلا کردار اس حقیقت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے مکمل یا اسمارٹ لاک ڈاﺅن کئے ہیں لیکن اپنی غرض کیلئے جلسے کرنے میں کسی احتیاط کی فکر نہیں کی جاتی ہے۔ یہ رہنما انہیں قوم کے رہزن ہیں جنہیں نہ ملکی حالات سے کوئی واسطہ ہے نہ ہی عوام کی کوئی فکر، بس ایک ہی فکر ہے کہ کسی طرح عمران حکومت اور اپنے متوقع انجام سے نجات مل جائے۔
اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے والے ان خود غرض رہنماﺅں کو کہ پاکستان اس وقت خطہ کے معروضی حالات اور بین الاقوامی صورتحال کی نزاکتوں سے نبرد آزما ہے صرف اپنی اغراض سے ہی واسطہ ہے اور ان کا عملی رویہ صرف اور صرف حکومت دشمنی و ریاست کی مخالفت کا محور ہے۔ کرونا کی وباءسے لے کر خطہ میں چین و بھارت کے درمیان، امریکہ کی شہہ پر قضیہ کی صورتحال نتیجتاً بھارتی حکومت کی پاکستان کےخلاف سرحدی جھڑپوں، پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتوں، ہائبرڈ وار کے اقدامات کےساتھ ساتھ بین الاقوامی سازشوں اور عالمی برتری کیلئے گروپ بندی، مسلم ممالک کی اسرائیل و امریکہ کے مفاد میں اور اپنی غرض کی خاطر پاکستان سے سرد مہری کے حقائق سے نپٹنے کیلئے صرف حکومت اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ ہی متحرک ہیں اور یہ طالع آزما ان کوششوں میں روڑے اٹکانے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ مخالفانہ روئیے اور تہمت طرازی ان کا وطیرہ بنا ہوا ہے جس کیلئے نوازشریف اور مریم نواز مسلسل مودی اور بھارت کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے عسکری قیادت پر ہدف طرازی پر تُلے ہوئے ہیں۔ مخالفوں کے ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود یہ امر قابل اطمینان ہے کہ حکومت اور ریاست ایک پیج پر ہیں اور قومی و بین الاقوامی معاملات پر یکسو ہیں۔ الحمد اللہ اس کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔
نجر میں ہونے والی آئی سی سی کانفرنس میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیراعظم آزاد کشمیر کے مثبت و پُر اعتماد لائحہ عمل و نمائندگی کے باعث آئی سی سی کے ایجنڈے میں نہ ہونے کے باوجود بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں غیر آئینی و متشددانہ کارروائیوں کےخلاف جملہ 57 ممالک نے نہ صرف قرارداد متفقہ طور پر منظور کی بلکہ کشمیر میں استصواب رائے نہ کرانے اور بھارت میں مسلم کشی کی بھی شدید مذمت کی۔ یہ پاکستان کی خارجی منظر نامے میں بڑی کامیابی ہے۔ دریں اثناءاگلے سال پاکستان کو اس کانفرنس کی میزبانی کا حق بھی دیدیا گیا۔ مزید شاہ محومد قریشی نے یو اے ای کی نمائندہ سے پاکستان کے لیبرز ویزا کے حوالے سے بھی خوش آئند گفتگو کی اور اس مسئلہ کے حل کی راہ ہموار کی۔
بین الاقوامی حوالے سے بھی پاکستان کے معاملات میں خصوصاً امریکی انتظامیہ کی تبدیلی اور عالمی سیاسی منظر نامہ میں دو بلاکس کی واضح نشاندہی کے تناظر میں نہایت احتیاط اور تدبر کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی یکجائی یقیناً اس حوالے سے کامیابی کی کلید ہو سکتی ہے۔ خصوصاً خطہ میں پاکستان کی اہمیت بالخصوص سی پیک کی تکمیل اور معاشی بہتری کیلئے بھی یہ مثبت اشارے ہیں۔ خطہ کی صورتحال کے حوالے سے گزشتہ روز وزیراعظم کی زیر صدارت تمام عسکری قیادت کا اجلاس اور بعد ازاں چینی وزیر دفاع کی آمد اور آرمی چیف سے ملاقات بھی بے شک ایک اہم اچیومنٹ ہے۔
خارجہ امور پر پاکستان کی کامیابی بے شک قابل تحسین ہے، معاشی امور میں بھی میکرو اکنامکس کی کامیابیاں قابل تعریف ہیں لیکن کپتان وزیراعظم کو داخلی معاملات اور عوام کی دُشواریوں پر توجہ دینی ہوگی۔ مفاد پرست اپوزیشن سے بیانیہ جھگڑوں سے نکل کر کپتان اور ان کی ٹیم کو عوامی بھلائی کیلئے عمل پیرا ہونا ہوگا۔ بیروزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کے عملی اقدامات کےساتھ، اس امر پر بھی توجہ دینی ہوگی قومی اہمیت کے معاملات پر رابطہ اور مفاہمت کی راہ اپنانا ہوگی۔ بے شک ان چوروں، لٹیروں کو این آر او نہ دیں، ان کے جرائم و لوٹ مار یقیناً انہیں انجام تک پہنچائیں گے، لیکن جمہوریت کے تسلسل اور پارلیمان کی برتری و اہمیت برقرار رکھنے کیلئے پارلیمانی طرز تعلق بہت ضروری ہے۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ کپتان ابھی تک امور مملکت کے رموز کو سمجھ نہیں سکے ہیں۔ سربراہ مملکت کا تدبر اور فیصلہ سازی کا راز سب کو ساتھ لے کر چلنے میں ہی ہے۔ محض بحث مباحثہ اور مخالفت کامیابی کی کلید نہیں ہوتی۔ باقی معاملات کو چھوڑیں، ملتان میں ہونےوالے اپوزیشن کے جلسے کے حوالے سے حکومتی نمائندوں کا رویہ خود حکومت کیلئے بہتر ثابت نہیں ہوا، بقول شاہ محمود قریشی میں تو شروع سے ہی جلسہ روکنے یا رکاوٹیں کھڑی کرنے کے حق میں نہیں تھا، سچ ہے کہ جلسوں سے حکومتیں تبدیل نہیں ہوتیں لیکن ان کے تسلسل کیلئے مثبت و عوامی فلاح کے اقدام اور تدبر ضروری ہیں۔ ہماری وزیر اعظم سے درخواست ہے کہ انا کے خول سے نکل کر معاملات پر توجہ دیں کیونکہ سب اچھا نہیں ہے۔عوام اور ملک کی بہتری کیلئے جمہوریت میں ڈائیلاگ کی بڑی اہمیت ہے۔!!!
٭٭٭