ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

0
151
جاوید رانا

قارئین کرام ہمارے گزشتہ کالم مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے پر آ پ کے مثبت ردعمل اور پسندیدگی کیلئے اظہار تشکر کرتے ہوئے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ آپ کے جذبات و اظہار ہمیں حقائق کے تناظر میں سچائی و حقیقت آپ تک پہنچانے میں مہمیز کا باعث بنتے ہیں اور قومی و عالمی ایشوز کو صحافتی اقدار کے مطابق آپ کے علم میں لانے، صورتحال کے تجزئیے میں ہمیں جرأت اظہار عطا کرتے ہیں۔ مذکورہ کالم خطہ اور عالمی صورتحال اور وطن عزیز پر اس اثرات و آئندہ وطن عزیز کیلئے متعینہ پالیسیوں و اقدامات کیلئے تجزیئے و تجاویز پر مبنی تھا۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ وطن میں مقیم پاکستانیوں کے حالات، وطن کے معاملات پر بیرون ملک پاکستانیوں کے جذبات زیادہ حساسیت و فکر کے مظہر ہوتے ہیں یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ہماری تحریروں کا محور وطن اور اہل وطن ہی رہتے ہیں۔
وطن عزیز ہفتہ رفتہ ، متعدد حوالوں سے ہنگامہ پرور رہا۔ مختلف حوالوں اور واقعات کے حوالے سے جو صورتحال رہی وہ مرزا غالب کے شعر ” ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق” نوحۂ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی” کی تصویر کی صورت نظر آئی۔ اس ہنگامہ آرائی میں کسی ایک فریق، ادارے حکومتی و مخالف ، سیاسی اشرافیہ کا کردار ہی نہیں تقریباً سارے ہی مخالفین کا تنازعتی روپ شامل رہا۔ انتخابی اصلاحات خصوصاً ای وی ایم کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس، پی ایم ڈی اے کے قانون سے متعلق تمام میڈیا تنظیموں کا احتجاج۔کنٹونمنٹ بورڈز کے اتخاب اور صدر مملکت کے پارلیمان سے خطاب عرض ہر معاملے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اہم ستونوں کے مونین پہ الفاظ دیگر قائدین کا منفی کردار یا اقدامات ہی واضح نظر آئے اور اس عمل میں سارے ہی کردار ملوث رہے گویا اس ہنگام میں سب نے ہی اپنا حصہ ڈالا۔
جمہوری مملکت میں صدر آئینی سربراہ ہوتا ہے اور اس کی عزت و تقدیم تمام سیاسی اشرافیہ یعنی مقننہ ریاستی و انتظامی اداروں حتیٰ کہ ساری قوم کا فرض اولین ہوتا ہے۔ اگرچہ صدر کا انتخاب عموماً اکثریتی جماعت سے ہوتا ہے لیکن منتخب ہو کر وہ ساری قوم کے لئے یکساں طور پر محترم و معظم ہوتا ہے۔ صدر مملکت کے آئینی فرائض منصبی میں ایک اس کا ہر سال پارلیمان سے خطاب ہے جو جمہوری روایات کے مطابق غیر جانبدارہوتا ہے اور احترام کا موجب ہوتا ہے۔ سوموار کو صدر مملکت کے خطاب کے موقع پر حزب اختلاف کا پارلیمان میں احتجاج اور شور و غوغا جمہوریت کی خوبصورت روایت کے برعکس ثابت ہوا اور یقیناً اپوزیشن کا یہ اقدام گلوبل ورلڈ میں پاکستان کی جمہوری تصویر کو دھندلانے کا باعث ہی بنا۔ اس منفی طرز عمل کی وجہ کیا محض اپوزیشن کا مفاداتی اور حکومتی مخالف عموماً رویہ ہی ہے یا اس کے کچھ اور عوامل و وجوہات بھی ہیں یہ ایک بڑا سوال ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں یقینا تین برس میں پاکستان کی معیشت و عوام کی بہتری و خوشحالی اور خارجی امور میں بہت بہتری آئی ہے، کورونا کے ہلاکت خیز دور میں حکومت کے مثبت اقدامات پر ہم اپنے گزشتہ کالموں میں بھرپور اعتراف اور اظہار طمانیت بھی کرتے رہے ہیں لیکن کیا حکومت کے ان اقدامات کے اثرات عوامی سطح پر پہنچ سکے ہیں؟
ایک جانب حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا ہے تو دوسری جانب زرمبادلہ میں اضافے اور برآمدات میں اضافے و مختلف صنعتوں کی ترقی پذیری کے باوجود روپے کی قدر میں گرتی ہوئی صورتحال نے عوام کو بے حال کر دیا ہے۔ تبدیلی حکومت کے بنیادی نعرے نااہل و کرپٹ سیاسی رہنمائوں سے قومی دولت کی واپسی اور انہیں قرار واقعی سزائیں دینے کی بنیاد پر عوامی حمایت اور کامیابی کے باوجود ان چوروں و لیٹروں کے خلاف ناکافی اقدامات نیز بہتر گورننس، امن و امان اور اصلاحات کی عدم تکمیل کے باعث عوام میں مایوسی و بددلی کا اظہار نہ صرف ماضی قریب کے ضمنی انتخابات بلکہ اتوار کو ہونے والے کنٹونمنٹ انتخابات سے بھی سامنے آیا ہے۔کراچی میں صدر عارف علوی، گورنر سندھ عمران اسمعٰیل کے انتخابی حلقے میں کلفٹن کنٹونمنٹ سے پی ٹی آئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ پنجاب میں جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ بھی کپتان کے لئے خوش آئند نہیں۔ ن لیگ کی 51 سیٹ کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی 27نشستوں پر مخالفین تو خوشی کے شادیانے بجا ہی رہے ہیں۔ مبصرین بھی آئندہ انتخابات کے حوالے سے تذبذب میں ہیں حتیٰ کہ پختونخوا میں جو پی ٹی آئی کا قلعہ ہے پشاور سے کپتان کو صرف ایک نشست ملی ہے۔
ہمیں یہ علم ہے کہ کپتان کی حکومت بقول شیخ رشید ٹھونک کر مدت پوری کرے گی اور آئندہ پانچ سال کیلئے بھی مقتدرین کی رضا مندی سے منتخب ہو سکتی ہے لیکن عوام کے مزاج و تعاون یعنی عوامی سپورٹ بھی انتخابی کامیابی کے لئے جزو لازم ہے اور اس کے لئے جہاں عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری اور ضروریات زندگی کے لئے سہولت ضروری ہے وہیں آئینی و انتظامی اداروں نیز میڈیا سے بھی بہتر روابط کار ضروری ہیں۔ ای وی ایم کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے محاذ آرائی، پی ڈی ایم کے نام پر میڈیا سے تنازعہ یا عدالتی نظام پر لاف زنی کسی بھی طرح حق میں نہیں۔ جو لوگ کپتان کی صفوں میں رہتے ہوئے اس قسم کے تنازعتی ایشوز کھڑے کر رہے ہیں وہ عمران خان سے وفادار نہیں اور نہ صرف متعلقہ حلقوں، اداروں بلکہ عوام کو تبدیلی حکومت سے نالاں کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ یہ اقتدار کے بھوکے ہیںاور پی ٹی آئی میں اس وقت تک ہیں جب تک یہ حکومت ہے۔ کپتان غور کریں کہ فواد چودھری، بابر اعوان، فردوس عاشق اور شہباز گل کب اور کیسے پی ٹی آئی میں آئے اور پہلے کہاں تھے۔ ہنگامہ پروری میں ان کا کتنا ہاتھ ہے۔ ہماری عرض یہی ہے کہ ہنگامہ آرائی کا نتیجہ نوحہ غم پر ختم نہ ہو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here