عدلیہ اور محروم طبقات کو انصاف کی فراہمی!!!

0
454

لاہور میں پنجاب بار کے سنٹر آف ایکسیلنس اور بائیو میٹرک سسٹم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے نظام عدل میں پائی جانے والی ان خامیوں کی نشاندہی فرمائی جو مظلوم اور محروم طبقات کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں۔ محترم چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاءمقدمات میں نئے قوانین کے حوالے لے کر آئیں ہم اس کی تشریح کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی تعیناتیوں میں وکلاءکی مشاورت شامل کر کے نئے جج تعینات کئے جائیں گے۔ چیف جسٹس صاحب نے آئے روز عدالتوں میں وکلاءکی جانب سے ہنگامہ آرائی اور ججوں سے بدتمیزی کے واقعات پر وکلاءکو نصیحت کی کہ وہ کیس لڑیں‘ مقدمہ ہارنے کی صورت میں جج سے لڑنے کی بجائے اپیل کا حق استعمال کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ میں زیادہ سے زیادہ جمہوری اقدار لائیں گے۔ تقریب سے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قائم خان نے بھی خطاب کیا اور مقدمات میں غیر ضروری التواءختم کرنے کی بابت اپنے عزم کو دہرایا۔ ریاست پاکستان کی بنیاد اسی بات پر رکھی گئی کہ یہاں کے باشندوں کو ان کے حقوق کی فراہمی میں ریاست اور اس کے ادارے مدد دیں گے۔ ریاست نے وہی عدالتی نظام بحال رکھا جو انگریز حکمران بنا گئے تھے۔ پہلے چیف کورٹ ہوتے جنہیں بعدازاں ہائیکورٹ کا نام دیا گیا۔ ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ کورٹس اور اس سے نیچے تحصیل عدالتیں موجود ہیں۔ معمول کے دیوانی و فوجداری مقدمات کی سماعت تحصیل اور ضلعی سطح کی عدالتوں میں ہوتی ہے۔ ان عدالتوں کے فیصلے پر کسی ایک فریق کو اعتراض ہو تو وہ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر سکتا ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی تشفی کا باعث نہ ہو تو سپریم کورٹ اعلیٰ ترین سطح پر اپیل کے لئے موجود ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں کو اگر سپریم کورٹ سے معافی کی درخواست پر رعایت نہ ملے تو وہ صدر مملکت سے موت کی سزا معاف کرنے کی اپیل کرنے کا حق رکھتے ہیں‘ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بنیادی طور پر ماتحت عدلیہ کے ان فیصلوں کی اپیل سنتی ہیں جن میں اپیل کنندہ کو شکایت ہو کہ عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے اس کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا۔ اسی طرح ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئینی امور اور آئینی نکات کی تشریح کر کے پارلیمنٹ کی مدد کرتی ہیں۔اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اکثر و بیشر صوبائی و مرکزی حکومتوں کو کسی معاملے میں مشورہ یا ہدایت کی جاتی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں حکمران مسلم لیگ ن اور چاروں صوبوں کی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے سے مسلسل گریز کا رویہ اپنایا تو سپریم کورٹ نے اس آئینی و جمہوری تقاضے کو پورا کرنے کا حکم دیا۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ وزیر اعظم کا کوئی غیر منتخب مشیر اور معاون خصوصی پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ حکومت نے اس فیصلے کا احترام کیا اور متعدد مشیر خواتین و حضرات نے پارلیمانی کمیٹیوں کی سربراہی سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ایسے بہت سے فیصلے ہیں جو قومی معاملات میں حکومتوں کی لاپرواہی کو دور کرنے کا سبب بنے ہیں۔ محترم چیف جسٹس نے عدلیہ کے جمہوری کردار کی جو بات کی وہ شاید اسی تناظر میں ہے کہ عدلیہ حکومتوں کے فیصلوں کو جمہوری دائرے میں رکھنے کا فریضہ بھی انجام دے رہی ہے۔ انصاف کی فراہمی میں وکلاء اور ان کی بار کونسلز کا کردار بنیادی ہے۔ یہ بار کونسلز ہیں جنہوں نے متعدد مرتبہ آمرانہ اقتدار کو چیلنج کیا۔ وکلاءحضرات کی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لئے قربانیاں لائق قدر ہیں۔ تشویش اس وقت پیدا ہوتی ہے جب عدالتوں میں جھگڑا‘ عدالتی عملے سے مارپیٹ اور ججوں سے بدتمیزی کے واقعات تھمنے میں نہیں آتے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب پنجاب میں ایک خاتون جج نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام خط میں چند وکلاء کے ہاتھوں مسلسل اپنا وقار مجروح ہونے کی شکایت کی۔ تین سال پہلے تو ایسا بھی ہوا کہ ایک ضلعی بار کے عہدیدار نے ناصرف اپنے ضلع بلکہ اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف مہم شروع کر دی۔ ماتحت عدالتوں میں وکلاء کے ہاتھوں سائلین کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس کا ازالہ نہیں ہو پاتا۔ وکلاء برادری میں بہت سے ایسے جرائم پیشہ شامل ہو چکے ہیں جن کی تعلیمی اسناد جعلی ہیں۔ یقینا ڈسٹرکٹ‘ ہائیکورٹ بار اور سپریم کورٹ بار ان خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش میں ہیں مگر یہ کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نظام انصاف کی ساکھ یہاں تک گر چکی ہے کہ لوگ قتل‘ اراضی پر قبضے ‘ عورتوں کی بازیابی اور کئی دوسرے جرائم میں فوری انصاف کے لئے طاقتور افراد کے ڈیروں کا رخ کرتے ہیں۔ ججوں کی کمی‘ ماتحت عدلیہ میں بدعنوانی یا انصاف کی فراہمی میں سست رفتاری لوگوں کو مایوس کر رہی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ جب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو انہوں نے عدلیہ میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر خاصا کام کیا‘ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے سپیڈی ٹرائل کورٹ کا منصوبہ ترتیب دیا جو کارآمد ثابت ہوا۔ اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ بار کے ساتھ مل کر اگر بار اور بنچ کے باہمی تعلق کے ساتھ ساتھ وکلاء کے پیشہ وارانہ طرز عمل کے حوالے سے عوامی تحفظات کو دور کرنے کا انتظام کر سکے تو اس کے دور رس اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس سے محروم طبقات کو انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں مدد ملے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here