Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
23 مارچ 1940ءکو مسلمان ہند کی قیادت نے منٹو پارک لاہور میں قرارداد لاہور منظور کی جس کو بنگالی قیادت فضل الحق نے پیش کیا تھا جس پر قائداعظم سمیت بڑے بڑے مسلم اکابرین کے دستخط ہوئے کہ مسلمان آبادی والے صوبوں اور ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری اور آزادی دی جائے جو برطانوی راج کی غاصبیت کے شکار تھے یہی قرارداد بعد ازاں قیام پاکستان کا جواز بنی کہ اکثریتی مسلم آبادی والے صوبوں پر مشتمل ایک الگ ملک بنا جس کا نام پاکستان رکھا گیا۔ نظریہ¿ پاکستان صحیح یا غلط تھا یہ آج کی بحث کا حصہ نہں ہے۔ آج کا موضوع بحث لاہور اعلان نامہ ہے جس کا آغاز 80 سال پہلے ہوا جس کی بناءپر پاکستان بنا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہوگا جس میں ہر شہری برابر کا حق دار ہوگا جس کے داعی بانی¿ پاکستان قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان میں ہندو، ہندو اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ تمام پاکستان کے برابر کے شہری تصور ہونگے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا یہاں قانون کی حکمرانی قائم ہوگی جو بد قسمتی سے نہ ہو پایا کہ آغاز پاکستان سے ملکی صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئیں جس کے بعد قانون ساز اسمبلی توڑ دی گئی جس کی بحالی کو روکنے کیلئے فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس منیر احمد کو استعمال کیا گیا جس کے بعد پاکستان کا پانچ مرتبہ آئین پامال ہوا، دو مرتبہ آئین منسوخ اور تین مرتبہ آئین مطل ہو، ملکی منتخب حکومتوں کو برطرف اور پارلیمنٹوں کو توڑا گیا۔ ملک پر غیر قانونی اور غیر آئینی قبضے کئے گئے جس سے 1940ءکا لاہور اعلان نامہ پاش پاش ہو گیا دوسرا لاہور اعلان نامہ 199ءکو جاری ہوا کہ جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان میں بذریعہ بس داخل ہوئے جنہوں نے مینار پاکستان پر جا کر سلام پیش کیا۔ اٹل بہاری واجپائی نے اقرار کیا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے جس کو تسلیم کرنا اخلاقی اور سیاسی فرض بنتا ہے۔ انہوں نے ایک قول پیش کیا کہ دوست بدلا جا سکتا ہے مگر پڑوسی بدلا نہیں جا سکتا ہے۔ لاہور اعلان نامے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان امن معاہدہ میں مسئلہ کشمیر پیش رفت ہوئی جس کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے وزیراعظم نوازشریف اور صدر تارڑ کی اجازت کے بغیر کارگل پر مہم جوئی کر دی جس میں سینکڑوں جوان شہید ہو گئے۔ جنگ میں پاکستان کو جگ ہنسائی ملی۔ لاہور اعلان نامے کو سبوتاژ کر دیا گیا جو آخر کار نواز حکومت کے خاتمے کا باعث بنا کہ جب جنرل مشرف نے آئین کو معطل رکتے ہوئے نواز حکومت پر قبضہ لیا جو ملک پر غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر نو سال تک قابض رہا جن کو آخر کار وکلاءتحریک کے ذریعے ملک بدر کیا گیا۔ کہ آج مقدمہ¿ غداری کا مجرم قرار دیا جا چکا ہے جو آج دبئی کے خلیفوں کی دہلیزوں پر لیٹا ہوا ہے۔ چنانچہ امسال چودہ سمبر 2020ءکو دو دن پہلے سقوط ڈھاکہ کی سولہ دسمبر سے پہلے لاہور اعلان نامہ جاری ہوا ےہ جس پر پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے دستخط ہوئے کہ آئندہ ملک میں صرف اور صرف عوام کی منتخؓ حکومت لائی جائے گی اس بات میں کسی قسم کی کسی بھی ادارے کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ آئینی اداروں کو آزاد اور خود مختار بنایا جائے گا، ملک میں پھیلی ہوئی بےروزگاری اور مہنگائی و بھوک ننگ کا خاتمہ کیا جائےگا۔ ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی بالاتری قائم کی جائے گی۔ ملک میں صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے گی صدارتی نظام کی مخالفت کی جائے گی جو ملک کے نہایت اہم اقدام ہیں جس سے ملک میں آزادی اور خود مختاری کی طرف پیش رفت ہے جس میں مسلم لیگ ن جس کا زور پنجاب میں ہے وہ چھوٹے صوبوں کی محرومیوں کو ختم کرانے میں مدد گار ثابت ہوگی جس کا پاکستان عرصہ دراز سے منتظر تھا کہ پنجاب سے کوئی قیادت اُبھرے گی جو چھوٹے صوبوں کی محرومیوں کو دور کرے گی، بہر کیف پاکستان میں بے تحاشہ بے چینی اور کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔ جو کسی بھی وقت انارکی کا باعث بن سکتی ہے جس کی ذمہ دار موجودہ ریاست کے اوپر ریاست کی حکمران اسٹیبلشمنٹ ہوگی جس نے ملک میں مسلسل بے یقینی پیدا کر رکھی ہے جس سے ملک کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
جس کیلئے لازمی ہوگا کہ پی ڈی ایم کا مزید اتحاد مضبوط بنانا ہوگا جو شاید اپنی کشتیاں جلا چکا ہے لہٰذا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو آئندہ انتخابات میں مل کر الیکشن لڑنا ہوگا جو ایک متھدہ حکومت قائم کر کے ایسے قوانین بنائے جس سے پاکستان کو موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی مشکلات سے نجات مل پائے۔ بہرحال پاکستان میں پہلی مرتبہ اسٹیبشلمنٹ اور عوام آمنے سامنے آچکے ہیں جن میں نفرتوں اور حقارتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جنرل باجوہ کےخلاف ہر جلسے اور جلوس میں نعرے بلند ہو رہے ہیں جس کی موجودہ حکومت کو مسلط کرنے اور مسلسل جانبداری پر الزامات لگ چکے ہیں جس سے پوری فوج بدنام ہو رہی ہے جس طرح ماضی میں جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف کے اعمالوں سے فوج بدنام ہوئی تھی آج پھر فوج کی جانبداری اور مداخلت کی وجہ سے عام فوجی جوان عوام کی نظروں میں نفرتوں کا باعث بنتا جا رہ اہے جو کوئی اچھا سائن نہیں ہے بشرطیکہ مقتدر اعلیٰ اداروں کے اہلکار سمجھ پائیں کہ عوام کےساتھ لڑنے سے نتائج بنگلہ دیش جیسے پیدا ہوتے ہیں لہٰذا ریت کے فوران میں شُتر مرغ بن کر ریت میں منہ چھپانا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔
٭٭٭