گزشتہ سے پیوستہ!!!
ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے، آج انسانی جانوں کی نہ وقعت ہے اور نہ ہی عزت جس کو چاہا مار دیا اور جس کو چاہا زندگی سے محروم کر دیا ایک زمانہ سے زام اور فلسطین میں انسانی جانوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، بچوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشا جا رہا، گھر کے گھر تباہ و برباد کر دیئے جاتے ہیں۔ انسانی لباسوں میں ملبوس درندے مسجدوں اور دوسری عبادتگاہوں میں گُھس جاتے ہیں اور دہشتگردی کرتے ہوئے لوگوں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں، انسانی جانوں کی نہ ہی وقعت ہے اور نہ ہی عزت، ان مظلوم انسانوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جو قدم قدم پر ان سیاسی غنڈوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے گھر بھی جلا دیئے جاتے ہیں اور ان کو جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔ ان کی بیویوں اور بیٹیوں کو بے آبرو کر کے سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا ظلم اور عذاب کشمیری مسلمانوں پر نازل ہوا ہے ان بے بس اور بے کس کشمیری مسلمانوں پر بھارتی درندے قہر بن کر ٹُوٹ پڑے ہیں وہ سب یہ کام بھارتی قاتل وزیراعظم کے اشارے پر کر رہے ہیں، عرصہ دراز سے دکانیں بند ہیں، مسجدیں ویران ہیں، دفاتر اور اسکول بند ہیں، گلی گلی کوچہ کوچہ بھارتی فوجی اور دہشتگرد چپہ چپہ پر انسانیت پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ کسی کو بھی گھر سے باہر نہیں جانے دیا اجتا، گھروں میں بند انسان بھوک سے تڑپ رہے ہیں، بیمار اور مصیبت زدہ افراد تباہ و برباد ہو رہے ہیں، اس سے بڑھ کر ظلم و ستم کبھی بھی کسی بھی قوم پر نہیں ہوا، اللہ تبارک وتعالیٰ ان سسکتے ہوئے بلکتے ہوئے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کو اس ظلم و ستم سے نجات دلا دے اور ان بھارتی درندوں کو تباہ و برباد کر دے، بھارتی حکمران درندے جو ہر مسلمان کی عزت اور جان سے بھیڑیوں کی طرح تباہی و بربادی مچائے ہوئے ہیں ان پر آسمان سے قہر نازل ہو اور سسکتی و بلکتی قوم کو نجات ملے۔ اس تباہی و بربادی کے پیچھے دراصل مسلمانوں کے خلاف دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے درندوں کا تعاون اور جوڑ ہے۔ انسانیت کا درس دینے والے بعض ممالک کے بہروپیے صدر اور وزیراعظم یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہے ہیں اس تباہی و بربادی پر انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں اور زبانوں پر تالے ڈال دیئے ہیں اسرائیلی غنڈوں اور بدمعاشوں کے تعاون اور اشاروں پر انسانیت کو تباہ و برباد کرنے والے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں بلکتے اور سسکتے ہوئے انسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اب ہم اپنے ملک پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں جو ملک جس کا وجود قرآن اور حدیث کے احکامات پر عمل کرنے اور ساری انسانیت کا احترام اور تقدس برقرار رکھنے کیلئے ریاست مدینہ کی طرح عمل کرنے کیلئے محسن قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کی کوششوں سے وجود میں آیا تھا وہاں اب کیا ہو رہا ہے، افسوس صد افسوس کہ وہاں کا کوئی بھی شہر ہو یا گاﺅں وہ بھی ان برائیوں اور خباثتوں سے دور نہیں ہے جن کا تذکرہ ہم کر چکے ہیں۔(جاری ہے)
اس کی اچل وجہ دین سے دوری اور گھر گھر ٹیلی ویژن کا موجود ہونا ہے پاکستان بننے کے بعد جو بھی حکومتیں وجود میں آئیں انہوں نے عوام کے مسائل مشکلات اور پریشانیوں پر توجہ نہیں دی اور دولت حاصل کرنے کیلئے کوششیں جاری رکھیں تاکہ وہ خود بادشاہت کے تخت پر بیٹھے رہیں عدالتوں نے عوام کو قمدمات میں اُلجھائے رکھا اور سالوں انہیں انصاف کے قریب نہیں آنے دیا۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والا چند ہی لوگ ہوتے ہیں ورنہ وہاں وہ سب کچھ ہو رہ اہے جو قطعی نہیں ہونا چاہیے۔ پورا معاشرہ اخلاقی طور پر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ شرم و حیاءاور غربت کا صرف نام رہ گیا ہے۔ اکثریت کے نزدیک باہر کے ممالک میں جا کر کام کرنا ہی مقصود رہ گیا ہے ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو اٹھتے بیٹھتے امریکہ، امریکہ، امریکہ پکار رہے ہیں، بچے ہوں یا بڑے ان کی اکثریت امریکہ میں رہنے والوں کے لباس اور طور طریقوں پر عمل کرتے ہیں، امریکہ آجائیں اور یہاں کا بھی جائزہ لے لیں ہر شخص کو کُھلی چھٹی ملی ہوئی ہے یہاں دو اسٹیٹس ہیں جہاں مردوں کی دوستی مردوں سے ہوتی ہے اور عورتوں کی شادی شدہ عورتوں سے، شراب عام طور پر کُھلے عام پی جاتی ہے، بعض مسلمان لڑکیاں کرسچین لڑکوں سے شادی کر لیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ اہل کتاب ہیں، یہ سب بکواس ہے اور کُھلا جھوٹ ہے، کرسچین مشرک ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور حضرت مریم اللہ اللہ تعالیٰ کی بیوی ہیں۔ وہ اس کے قائل ہیں اور ان کے عبادت کردوں کو جنہیں چرچ کہتے ہیں مثلث کا نشان عام طور پر بنا ہوا ہوتا ہے بعض لڑکیاں کسی بات پر اپنے ماں باپ سے ناراض ہوئیں تو اپنے دوستوں کے ہاں چلی جاتی ہیں، وہاں وہ ان کے بچوں کی ماں بن جاتی ہیں یہ سب کھلے عام ہو رہا ہے جو لوگ پاکستان جا کر اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کر لیتے ہیں ان میں سے بعض کا یہ حال ہے کہ اگر وہ کسی بات پر اپنے شوہر سے ناراض ہوگئیں تو وہ علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں حالات اور مسائل کی وجہ سے اکثر لڑکیاں بھی جاب کر لیتی ہیں اور ماہانہ تنخواہیں اپنے اداروں سے وصول کرتی ہیں کسی ناراضگی کی صورت میں وہ الگ ہو جاتی ہیں اور اپنے شوہر کےخلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیتی ہیں، یہاں امریکہ اور یورپ میں ڈاکٹروں کی آمدنی ہے یا کیلوں کی، شوہروں کےخلاف مقدمے عدالتوں میں چلتے ہیں اور عام طور پر ان کا فیصلہ لڑکی کے حق میں ہو جاتا ہے اور ماہانہ اخراجات کیلئے رقم مقرر کر دی جاتی ہے اگر بچہ ہے تو اس کو حق مل جاتاہے بینک اکاﺅنٹ اور پراپرٹی میں بیوی کو حصہ دیا جاتا ہے۔
تقریباً ایک ماہ ہو گیا ہے، ساری دنیا پر تباہی و بربادی کی وباءکرونا مسلط ہو گئی ہے، یہ چین سے شروع ہوئی تھی اس کے بعد ساری دنیا میں پھیل چکی ہے شاید ہی کوئی ملک ہو جو اس وباءسے بچا ہو، لاکھوں لوگ مر چکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد اس مرض سے متاثر ہو چکی ہے، کئی ملکوں کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔ مسجدیں اور عبادت گاہیں ویران ہیں، اسکول اور مدرسے بند ہو گئے ہیں، دفتروں میں کام کرنےوالے گھروں میں محصور ہو گئے ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ خلیفہ وقت شام تشریف لے جا رہے تھے جب آپ مقام سرخ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراءابو عبیدہ بن جراح سے ہوئی، انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے امیر المومنین کو بتلایا کہ شام میں طاعون کی وباءپھوٹ پڑی ہے یہ سن کر حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اول کو بلاﺅ، وہ انہیں بلا لائے تو حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا اور ان کو بتلایا کہ شام میں طاعون کی وباءپھوٹ پڑی ہے یہ سن کر مہاجرین الگ الگ ٹولیوںمیں بٹ گئے، بعض لوگوں نے کہا کہ حضور اکرمﷺ کے بعض ساتھی آپؓ کےساتھ رہے اور یہ مناسب نہیںتھا کہ آپ انہیں وباءمیں چھوڑ دیتے، یہ سن کر حضرت عمرؓ نے کہا کہ انصار کو بلا لاﺅ، انصار کو بلایا گیا، آپؓ نے ان سے بھی مشورہ کیا، انہوں نے مہاجرین کی طرح اختلاف کیا ،کوئی کہنے لگا کہ چلو ،کوئی کہنے لگا کہ لوٹ جاﺅ، یہ سن کر حضرت عمرؓ نے کہا کہ آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں، حضرت عمرؓ نے اب یہ کہا کہ یہاں جو لوگ بڑے، بوڑھے ہیں اور فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے، انہیں بلا لاﺅ، انہیں بلایا گیا تو انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ ان سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ جائیں اور وہ ملک جہاں وباءپھیلی ہوئی ہے نہ جائیں یہ سننے کے بعد حضرت عمرؓ نے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ صبح اونٹ چرا کر مدینہ واپس لوٹ جاﺅں گا صبح حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار اختیار کر لی جائےگی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ کاش یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ کی تقدیر کی طرف، تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر ایسی وادی میں جاﺅ جس کے دو کنارے ہوں ایک سر سبز و شاب اور دوسرا کشک کیا یہ واقعی ایسا نہیں کہ اگر تم سر سبز کنارے پر چراﺅ گے وہ اللہ کی تقدیر ہوگا اور خشک کنارے پر چراﺅ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر ہوگا، حضرت عبدالرحمن بن اوف آگئے وہ پہلے موجود نہیں تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم کسی سرزمین میں وباءکے متعلق سنو تو وہاں نہ جاﺅ اور جب ایسی جگہ جہاں تم موجود ہو وباءآجائے تو وہاں سے مت ہجرت کرو، یہ سن کر حضرت عمرؓ واپس ہو گئے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو چاہیے کہ حوصلہ رکھیں ہمت سے کام لیں اور گھبرائیں نہیں۔ غیر ضروری اجتماعات سے پرہیز کریں، زیادہ وقت اپنے گھر پر ہی رہیں، پابندی سے نمازوں کی ادائیگی کریں، صبح و شام پڑھنے کیلئے جو دعائیں حضور اکرمﷺ نے بتلائی ہیں وہ پابندی سے پڑھیں انشاءاللہ ہر طرح کی حفاظت رہے گی۔ آخر میں اپنے بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ ہمارے دوست، پڑوسی، یا رشتہ دار جو بھی اس دنیا سے جا چکے ہیں جن کا انتقال ہو چکا ہے وفات پا چکے ہیں ان کیلئے روزانہ ایصال ثواب کر دیا کریں یہ ان کا حق ہے اور کوئی مشکل کام نہیں ہے جو بھی سورتیں یا آیتیں ان کو یاد ہوں بار بار پڑھیں اور اس کا ثواب ان کو بخش دیا کریں اس کیلئے وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر وہ قرآن شریف دیکھ کر پڑھیں اور ثواب بخش دیا کریں بہت اچھا ہے جن کو قرآن شریف کی سورتیں یا آیتیں یاد نہیں ہیں ،وہ بار بار سبحان اللہ، الحمد اللہ اللہ اکبر پڑھیں اور اس کا ثواب بخش دیں۔ آخر میں ایک اور عرض ہے کہ وہ یہ ہماری کتاب سکون اور صحت کا مطالعہ ضرور کریں ان کی معلومات میں بہت اضافہ ہوگا۔
٭٭٭