اُ ف یہ بڑھاپا!!!

0
507
انصار الرحمن
انصار الرحمن

 

 

انسانی زندگی میں عمر کے لحاظ سے چار دور آتے ہیں۔ (۱) بچپن(۲)جوانی(۳) ادھیڑ عمر(۴) بڑھاپا۔بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسکی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسکی ماں کی توجہ اور فکر کا محتاج ہوتا ہے ۔ وہ جب بھی ذرا سا روتا ہے تو اسکی ماں سب کچھ چھوڑ کر فوراً اسکی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور کہتی ہے کہ ہائے میرا لال کیوں رو رہا ہے ۔ دن ہو یا رات ، بچہ کی ذرا سی بھی بے چینی یا پریشانی اس سے برداشت نہیں ہوتی اور وہ اپنا آرام اور سکون اور چین اس پر قربان کردیتی ہے ۔ عام طور پر باپ کے مقابلہ میں مائیں اپنی اولاد پر بھرپور توجہ دیتی ہیں اور اپنے بچہ کے آرام اور سکون کے لیے بار بار قربان ہوتی رہتی ہیں ۔ بچہ جب چھ مہینہ کا ہوجاتا ہے تو بیٹھنے لگتا ہے ۔ یہ وہ دور ہے جبکہ بچوں کی ماﺅں کو اپنے بچہ کی پرورش پر وپری پوری توجہ دینی چاہئے جو مائیں اس وقت اپنی مصروفیت کی وجہ سے تربیت کے اس دور میں دوسرے کاموں میں الجھی رہتی ہیں، مصروف رہتی ہیں اور ان کا بچہ شروع سے ہی ان کی توجہ اور فکر سے محروم رہتا ہے اسکے نتائج آنے والے دنوں میں انتہائی تکلیف دہ ہو جاتے ہیں ۔ کم عمری کا یہ دور تقریباً چودہ ، پندرہ سال تک رہتا ہے ۔ اسکی پوری پوری ذمہ داری اسکی ماں کی ہوتی ہے ۔ بچہ کا باپ بھی اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے لیکن بچہ کے ذہن کو اچھی باتوں سے نوازنا اور خوبصورتی کے سا تھ پوری توجہ اور فکر سے اچھی تربیت دینا ماں ہی کا حصہ ہے ۔ اس فکر اور توجہ کے سبب دوسرے بچوں کے لئے بھی اسکے بہن بھائی خوشیوں کا سبب بنتے ہیں ۔ جوانی کی دور اس وقت تباہ وبرباد ہو جاتا ہے جب بچہ اپنی کم عمری میں ماں کی غفلت اور لا پرواہی کے سبب غیر ضروری باتوں میں الجھ جاتا ہے ۔ باہر کے ملکوں میں رہنے والی فیملیوں میں ایک بات کی عام طو رپر شکایت کی جاتی ہے کہ ان کا بیٹایا بیٹی ان کی کسی بھی بات پر ناراض ہوکر ان کا گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔ وہ اپنے دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ رہنے لگا ہے ۔ اور اس طرح اپنے والدین کو اس پیار ومحبت سے محروم کردیتے ہیں جو کہ صرف اور صرف ان ہی کا حق ہے ۔ اسلامی تعلیمات پر جو لوگ شروع سے ہی پوری توجہ اور فکر سے عمل کرتے ہیں وہ ان خوبصورت لمحات اور زندگی کے اس نازک دور میں جو خوشیاں سمیٹ لیتے ہیں ان کا ذکر اللہ رب العلمین نے قرآن شریف کی سورة بنی اسرائیل پارہ15میں کیا ہے ”اور آپ کے رب نے حکم دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت مت کیا کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاﺅ کیا کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تیرے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے کبھی ( ہاں سے) ہوں تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکا کرو اور ان سے بڑے ادب سے بات کیا کرو اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہا کرو اور یوں دعا کرتے رہا کرو ۔ اے میرے رب تو ان پر رحم فرما جیسا کہ انہو ںنے مجھے بچپن میں ( ایسی شفقت سے ) پالا ہے۔“چیخنا ، چلانا اور مار دھاڑ کرنا تو بہت دور کی بات ہے ،رب العلمین(جاری ہے)
ان کی کسی بھی رات پر جو ناگوار گزرے اُف تک کرنے سے منع کرتے ہیں ۔ انسانی زندگی میں کوئی بھی فرد اپنے ماں باپ کے احسانات اورمہربانیوں کا بدلہ کسی بھی طرح ادا کرہی نہیں سکتا ۔ حضرت عمرؓ خلیفہ وقت تھے ۔ امیر المومنین ان کے دور کاایک مشہور واقعہ ہے ۔ ایک نوجوان اپنی ماں کے ساتھ بہت بدتمیزی اور گستاخیوں سے پیش آتا تھا ۔ ان کو اسکے اس طرز عمل کا معلوم ہوا تو انہوں نے اسکو بلا وابھیجا ۔و ہ آیا تو اس سے کہا کہ ایک مشک لے آﺅ ۔ وہ مشک لے آیا تو فرمایا کہ اس میں پانی بھر لو ۔ پانی بھر لیا تو فرمایا کہ اسے اپنے پیٹ سے باندھ لو ۔ ہر وقت یہ مشک تمہارے پیٹ پر بندھی رہنی چاہئے ۔ اس پر نوجوان مشکل میں پڑگیا ، اس کے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہوگیا ۔ اس نے کہا کہ ہر وقت یہ مشک باندھے رکھنا میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تیری ماں نو مہینہ تک تجھے اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھی اسکے بعدپیدائش کی مشکلات اور تکلیفوں کوبرداشت کیا تم چند گھنٹے یہ مشک اپنے پیٹ پر نہیں باندھ سکتے ۔ تمہاری ماں نے اپنی پوری توجہ اور فکر ، چین اور سکون تم پر قربان کردیا اور اپنی تکلیف کو تکلیف نہ سمجھا ۔ تم کو چاہئے کہ ہر وقت اسکی خدمت کرو اور آئندہ کسی بھی لمحہ اسکی خدمت سے انکار نہ کرو ۔ آئندہ تمہاری کوئی شکایت نہیں آنی چاہئے ۔ افسوس بہت افسوس ہے کہ آج کل کیا کچھ ہو رہا ہے ۔ کسی بھی بات پر بیٹا یا بیٹی ناراض ہوئے اور گھر چھوڑ کر چلے گئے ۔ باہر کے ملکوں میں رہنے والی فیملیوں میں یہ شکایت بہت عام ہے ۔ بیٹا ہو یا بیٹی ماں باپ کا گھر چھوڑ کر اپنے دوستوں کے گھر چلے جاتے ہیں ۔ وہاں رہنے لگتے ہیں اور ایسی بھی مثالیں عام کہ بیٹی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے دوست کے ہاں چلی گئی اور اس سے شادی کے بغیر اولاد بھی ہوگئی ۔ اکثر وبیشتر ملکوں میں مسلمان بیٹیاں غیر مذہب والوں سے شادی کرلیتی ہیں اور ان کو اس بات کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کررہی ہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اہل کتاب یعنی عیسائیوں سے شادی کی ہے ۔ کرسچن اہل کتاب کہاں سے ہو گئے وہ تو مشرک ہیں ۔ تثلیث کے ماننے والے ہیں ۔ ان کے عبادت کدوں یعنی چرچوں پر تثلیث کا نشان ہونا بہت ہی عام بات ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کی بیوی حضرت مریم ہیں اور حضرت عیسیٰ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بیٹے ہیں ۔ یہ تو کھلم کھلا شرک ہے ۔ بچپن کا دور ختم ہوتا ہے بچوں میں تھوڑی بہت عقل اور سمجھ آجاتی ہے وہ سکول جانا شروع کردیتے ہیں اس وقت ان کے والدین پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے لاڈلوں کے ہر عمل پر پوری پوری نظر رکھیں کہ وہ کسی بھی غلط جگہ نہ جائیں ، غلط بچوں سے نہ ملیں اور ایسا کوئی عمل ہر گز ہرگز نہ کریں جو ان کی آنے والی زندگی کو تباہ وبرباد کردے ۔ کسی بھی قسم کا نشہ ہواس سے کوسوں دور رہیں ۔ سگریٹ تک نہ پئیں ۔ آج کل سکولوں اور کالجوں میں نشہ آور اشیاءمختلف شکلوں میں ملتی ہیں، ان سے بالکل دور رہیں ۔ بہت احتیاط اور سوچ سمجھ کر زندگی گزارنی ہوتی ہے ۔ کسی بھی طرح ابلیس کے چیلوں کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ شرم وحیا اور غیرت کسی بھی معاشرہ میں رہنے والے باعزت افراد کا سرمایہ حیات ہوتی ہیں ان کی پیشانیوں کا جھومر ہوتی ہیں اس بات کا پورا پورا خیال رکھیں ۔ ہر قسم کی برائی خاص طور پر جھوٹ ، بے ایمانی، بے شرمی ، ملاوٹ اور فراڈ سے کوسوں دور رہیں ۔ اس بات کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے ۔ خواہ کسی بھی شکل میں ہو ، بھلائی کا بدل نہیں بن سکتا ۔ غلط اور ناجائم طریقہ سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ تکلیفیں ، پریشانیاں ، مصیبتیں اوربیماریاں لے کرآتی ہے ، سکون اور چین کا دور دور پتا نہیں ہوتا ۔ دلوں کو اطمینان صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر اور تعلق سے ہوتا ہے ۔ اس لئے زندگی کے ہر گوشہ میں ایسا کوئی عمل ہرگز ہرگز نہ ہو جو قرآن شریف اور احادیث نبوی کی تعلیمات کےخلاف ہو ۔ آج کل اکثر وبیشتر افراد خواہ مرد ہوں یا عورت ، چھوٹے ہوں یا بڑے ، کہتے ہیں کہ ہم کو ڈپریشن ہے ۔ڈپریشن کیا ہے ۔ اللہ رب العلمین سے دوری کا نام ہے ۔ کوئی بھی کام ہو ، کوئی بھی مسئلہ ہو اسکے پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ انجام دینا چاہیے اور اس میں کامیابی اور خیر خواہی کے لیے رب العلمین پر پورا پورا بھروسہ کرنا چاہیے ۔یہی ڈپریشن کا کامیاب علاج ہے ۔ ڈاکٹروں کے علاج سے یا دن رات دوائیں کھانے سے ڈپریشن نہیں جاتا ۔ اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔ زندگی میں ایسا دور بھی آتا ہے جب والدین ، ماں باپ، اپنے بیٹے یا بیٹی کے لیے رشتہ تلاش کرتے ہیں یہ ان کا حق ہے کہ جس لڑکی یا لڑکے میں خوبیاں اور بھلائیاں نظر آئیں اور جسکے ساتھ ان کے بیٹے یا بیٹی کی زندگی خوشیوں کا سبب بنے اسکو قبول کریں ۔ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ جو بھی رشتہ آئے اسکو ہر حالت میں قبول کرلیں۔ آج کل کس قدر بڑا ظلم ہو رہا ہے کہ رشتہ آیا پسند نہیں کیا تو ان کے بیٹا بیٹی کی شادی کے سلسلے میں رکاوٹیں اور بندشیں لگا دیں ۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جن کو اللہ تبارک تعالیٰ کا ذرا بھی ڈر نہیں کہ دوسروں کے لیے مشکلات اور تکلیفوں کے دروازے کھولیں اورجو عامل کامل اور روحانی معالج ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کو اپنی زندگی کا اثاثہ سمجھنے والے مومن کبھی بھی غلط کام نہیں کرتے ہیں ۔
ایسے لوگ جن کا ظاہر کچھ ہو اور باطن کچھ ، چند سکوں کی خاطر اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے تباہی وبربادی کے راستہ کھولتے ہوں ،ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کا ایندھن بنیں گے ۔ ساری مخلوق کو خواہ انسان ہوں یا جنات ایک دن اللہ رب العلمین کے حضور پیش ہونا ہوگا ۔ اس دن کو روز محشر یعنی قیامت کا دن کہتے ہیں۔ اس دن یہ ندی، نالے، پہاڑ ، دریا کچھ بھی نہیں ہوگا ، میدان ہوگا ، اس میں ساری مخلوق انسان اور جنات دنیا کے شروع سے اختتام تک حاضر ہوں گے ۔ قیامت کا دن پچاس ہزار برس کے برابر ہوگا ۔ سب کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی کوئی بھی بول نہیں سکے گا ۔ ان کے ہاتھ بولیں گے اور پاﺅں گواہی دیں گے کہ وہ کہاں جاتے تھے اور کیا کچھ کرتے تھے ۔ ہر شخص کے ہاتھ میں اسکی زندگی کے ابتدائی لمحات سے آخر ی لمحہ تک مکمل تفصیلات ہوں گی جبکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوا ، مرحوم ہوا، ایک ایک بات کی تفصیل اللہ رب العلمین کے مقرر کردہ فرشتوں جن کو کراماًکاتبین کہتے ہیں نے لکھی ہوگی ۔ حق تعالیٰ نے ہر شخص کے ساتھ خواہ اسکا تعلق کسی بھی قوم سے ہو، کسی بھی ملک اور مذہب سے ہو ، دو دو فرشتے جنکو کراماً کاتبین کہتے ہیں مقرر کئے ہیں ان میں ایک فرشتہ اس شخص کے اعمال خیر اور دوسرا اسکے اعمال شر کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا ہے ۔ یہ اعمال نامے قیامت کے دن ہر شخص کے ہاتھ میں ہوں گے ۔ اللہ رب العلمین جنت اور دوزخ کا فیصلہ ان اعمال ناموں کے پیش نظر کریں گے ۔ قیامت کب آئے گی؟ کسی کو نہیں معلوم ہے، صرف اللہ رب العلمین کو معلوم ہے وہی جانتے ہیں جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ نے قرب قیامت کی نشانیاں بتلائی ہیں ۔ اس لیے ہر شخص کو جس کی صبح ہوتی ہو، شام ہوتی ہو ہر کام سوچ سمجھ کرکرنا چاہئے اور کسی بھی طرح کسی کے لیے تکلیف اور پریشانی اور اذیت کا سبب ہرگز ہرگز نہیں بننا چاہئے۔
بڑھاپا کے آثار شروع ہونے سے قبل جو دور آتا ہے اس کو ادھیڑ عمر کا دور کہتے ہیں۔ زندگی کے ہر دور میں صبر اور شکر ضرور ہونا چاہئے اور ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے ۔ اسکے ساتھ برداشت سے کام لینا بھی بہت ضروری ہے ۔ خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتے ہوں ان کو صبر وشکر کے ساتھ ساتھ برداشت سے بھی کام لینا چاہیے ۔ اسکے سبب بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے نجات مل جاتی ہے ۔ عمر خواہ کتنی ہی کیو ںنہ ہو ، زندگی کا آخری دور بڑھاپا کہلاتا ہے ۔ اکثروبیشترلوگ خواہ وہ مرد ہوںیا عورت اس دو رکی مشکلات اور پریشانیوں کو دیکھتے ہیں اور جھیلتے ہیں ۔ انسانی اعضاءرفتہ رفتہ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اکثر افراد کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں کمزور پڑ جاتی ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے جبکہ وہ اکثروبیشتر باتیں بھولنے لگتے ہیں ان کی یادداشت کمزور پڑجاتی ہے ۔ ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں جہاں یہ سب بہت واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ ایک صاحب کا تذکرہ ہے کہ وہ اکثر اوقات اپنے گھر کے افراد کو بھی نہیں پہچانتے تھے ۔ ایک دن انکی بیگم ان کے قریب کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں وہ اٹھ کر گئیں تو کہنے لگے یہ کون لڑکی تھی جو ابھی گئی ہے ۔ ایک اور صاحب کا تذکرہ ہے کہ وہ جب بھی نماز کیلئے محلہ کی مسجد میں اکیلے جاتے تھے تو ان کا گھر پہنچنا مشکل ہوجاتا تھا ، کبھی کسی گلی میں چلے جاتے تو کبھی کہیں۔ ایک اور بڑے بھلے شخص تھے وہ اپنے جاننے ملنے والوں کو مشکل سے ہی پہچانتے تھے ۔ عام طور پر بڑھاپے میں یہ شکایتیں ہو جاتی ہیں ۔ (۱) بصارت : دیکھنے کی قوت کمزور پڑ جاتی ہے ۔ نظر کی کمزوری کبھی تو قریب کی متاثر ہوتی ہے اور کبھی دور کی ۔ (۲) سماعت: بعض افراد اونچا سننے لگتے ہیں ۔ بآواز بلند بولا جائے بات کی جائے تو ان کی سمجھ میں آتا ہے ورنہ نہیں ۔ (۳) یادداشت نسیان: بعض افراد کی یادداشت بہت متاثر ہوتی ہے ۔ اسکو نسیان بھی کہتے ہیں ۔ بعض افراد کو پچھلی باتیں یاد نہیں رہتیں اور بعض افراد اپنوں اور غیروں کوٹھیک طرح پہچان ہی نہیں سکتے ۔ ان تکلیفوں اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے اپنے حال احوال میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم کو شامل کرلیا جائے تو اور جو روحانی اور گھریلو علاج ہم بتلا رہے ہیں اگر اس پر صبر وسکون سے پورا پورا عمل کیا جائے تو انشاءاللہ خوشیاں نصیب ہوں گی ۔
بصارت: ایک پلاسٹ کین میں پانی بھرلیں اس پر روزانہ اللہ تبادک وتعالیٰ کا نام یا بصیر گیارہ سو مرتبہ پڑھ کر دم کیا جائے اور اول آخر درود شریف تین تین مرتبہ پڑھیں اسکے علاوہ اس پانی پر یا شکرپر اکتالیس مرتبہ پڑھ کر دم کریں ، اس کے علاوہ سورہ ق پارہ 26کی آیت نمبر بائیس گیارہ مرتبہ اور سورہ نجم پارہ 27کی آیت نمبر سترہ اور اٹھارہ تین سو تیرہ مرتبہ پڑھی جائیں ۔ دن میں کئی مرتبہ تھوڑا تھوڑا پانی پئیں ، کم ہونے لگے تو اور ملاتے جائیں کسی وقت تھوڑا سا پانی دونو ںآنکھوں پر لگا لیا کریں اسکے علاوہ ہلدی دو تولہ ، قلمی شورہ 6ماشہ لے کر پیس لیں ، روزانہ تین تین سلائی دونوں آنکھوں پر لگا لیا کریں ۔ روزانہ صبح وشام سونف چھ چھ ماشہ کھا لیا کریں ۔ گاجر کا جوس روزانہ ایک گلاس پینا بہت فائدہ مند ہوگا ۔ ایک کام اور کریں دائیں ہاتھ کی تیسری بڑی انگلی کے برابر والی انگلی کا تیسرا پور دائیں ہاتھ کے انگوٹھیں سے ملائیں یہ عمل دن میں ڈھائی سے تین منٹ روزانہ کرلیا کریں ۔
سماعت:پینے والے پانی کی کین پر سورہ فرقان پارہ19کی آیت نمبر ایک اور دو روزانہ اکیس اکیس مرتبہ پڑھیں ۔ اول و آخر درود شریف تین تین مرتبہ پڑھیں اسکے علاوہ سورہ دہر پارہ19کی آیت نمبر ایک اور دو بھی روزانہ اکتالیس مرتبہ پڑھ کر اسی پانی پر دم کی جائیں ۔
تھوڑی سی ہینگ ، روغن زیتون میں ڈال کر گرم کریں اسکے بعد اسکو ایک شیشی میں بند کردیں ۔ چند دن چند قطرے کان میں ڈالنے سے کان کادرد، گنگناہٹ اور بہرہ پن دور ہو جاتا ہے اگر ادرک کاپانی شہد میں ملا کر کان میں ڈالا جائے تو بھی یہ تکلیف ختم ہو جاتی ہے ۔ دونوں ہاتھو ںکی تیسری انگلیوں کے پور دبانے اورپریشر ڈالنے کا عمل یہاں بھی کیا جائے ۔
یادداشت:جمعہ کے دن سورج نکلنے کے بعدایک گھنٹہ کے اندر اندر پینے والے پانی پر تین ہزار مرتبہ یا قوی پڑھ کر دم کیا جائے ۔ یہ عمل کم از کم سات جمعہ ضرور کیا جائے ۔ روزانہ اس پانی پر یا مقتدر پانچ سو مرتبہ پڑھ کر دم کیا جائے ، اسکے علاوہ سورہ اعلیٰ پارہ30کی آیت نمبر چھ اور سات روزانہ تین سو تینتالیس مرتبہ پڑھ کر دم کریں اول آخر درود شریف تین تین مرتبہ ۔
آخر میں اپنے بہن اور بھائیوں سے ایک درخواست ہے وہ یہ کہ اپنے جاننے ملنے والے رشتہ دار اور پڑوسی جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں جن کا انتقال ہوچکا ہے ان کو روزانہ ایصال ثواب ضرور کردیا کریں ۔ اسکا آسان طریقہ یہ ہے کہ قرآن شریف کی جو بھی سورتیں یا آیتیں ان کو یاد ہوں بار بار پڑھیں اور اسکا ثواب بخش دیں ۔ قرآن شریف دیکھ کر پڑھنے کے لیے وضو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ،اس عمل کے لیے وضو نہیں کرنا ہوتا ۔ اگر قرآن شریف کی کوئی سورت یا آیت یادنہیں ہے تو سبحان اللہ الحمدللہ اللہ اکبر کو بار بار پڑھیں پھر اسکا ثواب بخش دیں یہ ان کا بڑا حق ہے ۔ دوسرا کام یہ کریں کہ اگر گاڑی میں کہیں آنا جانا ہو تو فلمی گانوں کے کیسٹ نہ لگائیں، قرآن شریف کی تلاوت کے کیسٹ لگالیں یا پھر نعتیں سن لیا کریں ۔
ہماری کتاب سکون اور صحت کامطالعہ ضرور کریں اس سے معلومات میں بہت اضافہ ہوگا ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here