ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
سادات کرام کا احترام شرعاً عرفاً لازم ہے ۔ اس لیے کہ اس سے امت کی اپنے نبی سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ پتہ چلتا ہے وہ اپنے رسول سے کتنے مخلص ہیں ۔ یاد رہے بنی ہاشم کا احترام تو ہے ہی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے خاندان کو دوسرے خاندانوں پر برتری وفضیلت بخشی ہے ۔ حتیٰ کہ ان کے لئے صدقہ وزکوٰة کو حرام قرار دے کر خمس رکھا ۔ خمس سالانہ بچت کا پانچواں حصہ ہے جو مزید دو حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے ۔ آدھا خمس مستحق بنی ہاشم کو جب کہ آدھا فاطمی النسل معصوم امام یا ان کے نائب تک پہنچایا جاتا ہے ۔ بنی ہاشم کے بعد فا طمی سادات کو مزید برتری حاصل ہے کہ وہ اولاد رسول ہیں ۔ ہمارے پیارے نبی فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کی نسل اس کی صلب سے چلتی ہے جبکہ میری نسل علیؑ وبتولؑ سے چلے گی ۔ جن کی رگوں میں رسول اکرم کا خون ہے وہ دیگر امت سے افضل وبرتر ہیں کیونکر نہ ہوں ؟قرآن مجید میں ارشاد قدرت ہے اسے میرے حبیب!اپنے قریبوں کا حق ادا کردیجئے ۔ جب علت نمائی کائنات کے لیے واجب ہے کہ وہ حق فاطمہؑ ادا کریں جو مصداق بی قربی ہیں اور جن کی مدت فرض کی گئی ہے تو امت کے لیے ایسی سیدہ کا حق غصب کرنا کیونکر جائز گا ؟ لہٰذا حق سادات مالی واخلاقی طور پر ادا کرنا چاہئے جو اجر رسالت ہے ۔ نبی کریم میدان مباہلہ میں کسی بھی امتی کو نہیں لے کر گئے بلکہ جانے والے سارے ہی سید تھے ۔ خود سید الانبیاءالمرسلین ، حضرت علیؑ سید المسلمین، سیدہ فاطمة الزاہرئؑ ، سید نساءالعالمین جبکہ حسنین شریفینؑ سیدہ شباب اہل الجنت ، آیت تطہیر کا مصداق بھی یہی ہستیاں قرار پائیں ۔ کوثر یعنی خیر کثیر بھی اولاد رسول قرار پائیں جبکہ سورہ دہر انہی کے لئے نازل ہوئی اور انہی کے گھر کی پکی روٹیوں کے بدلے جنت فروخت ہوئی ۔ ان ہستیوں نے دور نبوی میں نبی کریم کی اور بعد نوبی مشن نبی کی مدد کی انہیں ہستیوں کے گھر کا سلام بنی کریم روزانہ فرماتے تھے ۔ انہی چار ہستیوں کو منی کی منزل پر فائز کیا ۔ نبی کریم کے ساتھ حضرت ابوطالبؑ اور خدیجہ الکبریؑ کی نیکیوں اور احسانات کابدلہ اللہ نے یوں دیا کہ نسل نبی ابو طالب ؑ کے بیٹے اور خدیجہ الکبریؓ کی صاحبزادی سے آگے بڑھی ۔ چودہ سو سال میں سادات کا احترام کرنے والے بھی رہے جبکہ توہین سادات کرنے والے بھی کم نہیں رہے ۔ قرآن مجید میں واضح لکھا ہے کہ ان کے ساتھ لوگ حسد کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ کا فضل ان کے شامل حال رہا ہے ۔ مجھے نصاری بخران کی نسل سے ایک عیسائی پادری ملا جس نے مجھے بتایا کہ ہم نسلاً بعد نسل سادات بنی ہاشم کا احترام کرتے ہیں ۔ خام الانبیائؑ کا ارشاد گرامی ہے ۔ اکرموںاولادی الصالحین للہ والطالحین لی۔ میری اولاد کا احترام کرو ، اچھوں کا اللہ کے لئے ،جو اچھے نہیں ان کا میرے لئے ۔ کسی شخص کے بارے میں حقیقی رخ جاننا ہوتو اس کے بچوں سے ہی پوچھا جاتا ہے ۔ میرا کوئی دوست اگر میرا احترام کرے اور میرا اولاد کو دھکے مارے تو وہ میرے دل سے ہمیشہ کے لیے اتر جائے گا ۔ صحابہ کرام اور ازواج مطہرات خود فاطمة الزہراؑ اور ان کی اولاد کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ اُم المومنین حضرت عائشہ ارشاد فرماتی ہیںکہ حضور کو مردوں میں سب سے زیادہ علیؑ اور عورتوں میں سب سے زیادہ فاطمہؑ سے پیار تھا ۔ بعض ازواج مطہرات فرماتی تھیں کہ اگر کبھی حضور رنجیدہ ہوتے تو انہیں فاطمہؑ کا نام لے کر راضی کردیا جاتا تھا ۔
آج کل بعض کالم نگار سادات کرام کے خلاف لکھ رہے ہیں ۔ بعض کینگر بنا کر تمسخر اڑا رہے ہیں ۔ ایک مضمون نگار نے لکھا کہ دنیا میں جعلی سادات بہت ہو گئے ہیں اس سے سوال ہے دنیا میں خدائی کے دعویدار کو دیکھ کر عبادات خدا چھوڑ دیں گے ؟؟ مسیلمہ کذاب سے لے کر دجال ہند تک سیکڑوں لوگوں نے دعویٰ نبوت کیا ہے کیا ان کے جھوٹے نبوت کے دعویٰ کی وجہ سے کلمہ چھوڑ دیں گے ؟ امامت کے جھوٹے دعویدار کے سبب کیا حقیقی اماموں کی پیروی چھوڑ دیں گے ؟ اگر کوئی شخص سید ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے تو ہم حقیقی اور سچے سادات کا احترام تھوڑی چھوڑ دیں گے ؟ سفیر روم نے دربار یزید میں سربریدہ مظلوم کربلاؑ کو دیکھ کر یزید سے کہا تھا یزید ہم اس مٹی کو متبرک سمجھتے ہیں جس پر ہمارے نبی عیسیٰؑ کی سواری کے قدم لگے تھے اور تم نے اپنی نبی کا بیٹا قتل کردیاگیا ۔ اس نے یہ بھی کہا ان لبوں سے چھڑی ہٹا لے اس لئے کہ میں ایک وفد میں تمہارے نبی کو ملنے گیا تھا اور میں نے انہی لب ہائے حسینؑ کے بوسے سے لیتے ہوئے تمہارے نبی کو دیکھا تھا ۔ فاطمہؑ کی اولاد کے احترام کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ حسنین شریفینؑ کی حضور اکرم سواری بنتے ہیں۔ فاطمہ کا بیٹا اگر حالت سجدہ میں پشت رسالت پر سوار ہو جائے تو بحکم خدا تسبیح بڑھا دی جائے ۔ فاطمہؑ کے بیٹوں کے جھولے فرشتے جھلائیں ۔ جبرائیلؑ جیسا فرشتہ درزی کہلانے میں فخر کرے ۔ عقابیل جیسے فرشتے آٹے کی چکی چلائیں اور مقرب الٰہی میں فرشتہ خانہ سیدہ کی خاکروبی کریں ۔
حضرت ابوہریرہ حسینؑ کے قدموں کی خاک اپنی آنکھوں پر لگاتے تھے جس طرح عمران کی بیوہ نے نذر مانی تھی کہ اللہ اسے بیٹا دے تو وہ وقف کردے گی ۔ انہیں اللہ نے وعدہ کیا کہ بیٹا دوں گا مگر ان کی بیٹی مریم پیدا ہوئیں ۔ جن کے بیٹے عیسیؑ سے نذر پوری ہوئی اور فرزندہ عمران قرار پائے اگر عمران کا نواسہ عمران کا بیٹا ہوسکتا ہے تو حضور کے نواسے حسنین شریفینؑ فرزندرسول کیوں نہیں ہوسکتے ؟
قرآن نے آیت مباہلہ میں حسنینؑ کو رسول کے بیٹے کہا ہے ، حضور پاک کے صلبی فرزندہ جناب ابراہیم ؑ زندہ تھے مگر انہیں مباہلہ میں نہیں لے کر گئے تاکہ کوئی یہ نہ کہے فرزند رسولؑ فرزند بتول کا ہم سفر ہے ۔ جب رسول زادہ علیؑ وبتولؑ زادوں کی برابری نہیں کرسکتا تو غلام زادے علیؑ وبتول زادوں کے مقابلے پر کیسے آئیں گے ؟ حسنینؑ کی اولاد آج تک بلکہ تا قیامت اولاد رسول ہے اور ان کا احترام ہم سب پر واجب ہے ۔ حضرت علیؑ جنگ صفین کے دوران ہر حملے کے سامنے اپنے بیٹے محمد حنفیہؑ کو بھیجتے تھے ۔ حسنین شریفینؑ کو خیمے میں بٹھائے ہوئے تھے جس پر محمد حنفیہؑ نے عرض کیا بابا میرے بھائیوں کو بھی تو ہمارہ بھیجیں جس پر مولائے کائناتؑ نے فرمایا !تم میرے بیٹے ہو وہ رسول کے بیٹے ہیں ۔ نیز فرمایا وہ میری آنکھیں ہیں تم میرے ہاتھ ہو ، بد ن پر حملہ ہو تو ہاتھ دفاع کرتے ہیں ۔ یہ دلیل ہے کہ فاطمہ ہاشمی پر فضیلت رکھتے ہیں ۔ جب دیگر اولادعلیؑ اولاد نبی کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو ہندوﺅں ، سکھوں اور غیر مسلموں کی اولادیں اولاد رسول کا مقابلہ کیسے کرسکیں گی ؟
فوٹوچھپوانے والے نو دولتیے اپنی عاقبت خراب نہ کریں جب مامون الرشید عباسی حاکم نے حضرت امام علی رضاؑ سے کہا کہ آپ ہمارے رشتہ دار ہیں تو آپ کو ہم پر کیا فضیلت ہے؟ تو آپ ؑ نے ارشاد فرمایا نبی کریم تم سے رشتہ مانگ سکتے ہیں مگر مجھ سے رشتہ نہیں مانگ سکتے ۔ اس لئے کہ میری بیٹی رسول کی بیٹی ہے ۔ اگر کچھ غیر سید خود کو سید کہلانے لگ گئے ہیں تو اس میں حقیقی سادات کا تو کہیں قصور نظر نہیں آتا ہے ۔ کچھ علاقوں میں بہت سارے حضرات خود کو حیدری، جعفری، کاظمی، علوی، فاطمی، حسینی ، حسنی، محسنی ، عابدی ، شیرازی ، بخاری لکھتے ہیں ۔ وہ حقیقتاً سید نہیں ہیں ۔ تو ان سے گزارش ہے کہ وہ لکھنا چھوڑ دیں یا پھر وضاحت کریں ۔ جیسے ان کے دادا کاظم تھے اس لئے کاظمی لکھوا رہے ہیں یا حیدر، جعفر کے غلام ہیں اس لئے حیدری اور جعفری لکھوا رہے ہیں وغیرہ ۔ایسے افراد یا خاندان ضروری نہیں کہ بدنیتی سے ہی یہ لکھواتے ہوں ۔ ہوسکتاہے غفلت ہو یا ممکن ہے عقیدت ہو ۔ بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو ساتھ سید ہونے کاد عویٰ بھی کریں ۔
البتہ اگر ایسا ہوتو قابل مذمت ہے ۔ حدیث شریف ہے جس نے اپنا نسب بدلا اس نے کفر اختیار کیا ۔ بہت سارے لوگ حضرت نوحؑ کے بیٹے کی مثال دیتے ہیں۔ وہ بالکل درست ہے اس لئے کہ اسلام میں فضیلت کا معیار تقویٰ ہے تاہم نوحؑ کے ایک بیٹے کے خراب ہونے سے دوسرے بیٹے کی توہین تھوڑی کی جائے گی ۔ الحمدللہ آج مسلمانوں کی اکثریت سادات کا احترام کرتی ہے ۔ صرف چند مفاد پرست، متعصب، حاسد اور جاہل افراد ایسے ہیں جو کوئی موقع ہاتھ نہیں جانے دیتے ۔
ایک صاحب آج کل ایک لوکل ترین اخبارمیں حضرت علیؑ کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ خوب سادات دشمنی کا اظہار کررہے ہیں ۔ حوزہ علیمہ نجف اور حوزہ علمیہ قم میں احترام سادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے غیر سید سیاہ عمامہ نہیں پہنتے ۔ خرکار پٹھان جب بچوں کو پکڑنے جاتے ہیں تو وہ بھی سیدوں کا از حد احترام کرتے تھے ۔ میرے اساد بزرگوار مرحوم آیت اللہ مدرس افغانی سید طالب علم کے احترام میں منبر سے اتر جاتے تھے ۔ احترام سادات ہمیں ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا ۔ یمن میں سادات کو اشراف پر لکھا جاتاہ ے ۔ ابوالفضل العباس ؑ جو لشکر حسینی کے جرنیل تھے مگر عمر بھر خود کو امام حسینؑ کا غلام کہلایا ۔ حضرت عباسؑ کی جناب والدہ اُم البنینؑ حسنین شریفینؑ کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر ملاکرتیں اور خود کو ان کی خامہ کہلاتیں ۔ ہم اعوانوں کی رگوں میں بھی حضرت بعباسؑ کا خون ہے ۔ اس لئے ہم سادات کرام کے نوکر کہلاتے ہیں ۔ ہماری مائیں ہمیں سبق دیتی ہیں کہ سید کے ساتھ ایک چارپائی پر نہیں بیٹھنا ۔ میں سادات کرام کے حکم پر بڑے بڑے بدمعاشوں کو ایک دوسرے کے قتل کو معاف کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
میرے گاﺅں سندرال میں امتیوں اور سادات کے قبرستان الگ الگ ہیں ۔ تاکہ سادات اور سید انبیوں کی توقیر وتعظیم ملحوظ خاطر رہے ۔ میرے اوپر جب دہشت گرد تابڑ توڑ حملے کررہے تھے تو میں نے وصیت کی تھی کہ مجھے میرے والد مرحوم کی پائنتی میں دفن کرنا اور میری تختی پرم وٹا سا لکھنا ادنی غلام سادات کرام ونوکر اولاد رسول سخاوت حسین ابن عطاءاللہ ۔
بصرہ کے ایک عارف باللہ لکھتے ہیں کہ میں نے سن رکھا تھا کہ مصر کے بازار میں ایک آہنگر ہے جو گرم لوہے کو ہاتھ سے کا ٹتا ہے اس کا ہاتھ نہیں جلتا ۔ وہ پوچھتے بازارمصر میں پہنچے تو دیکھا کہ ایک آةنگر سرخ لوہے کو ہاتھ سے پکڑ کر دو ٹکڑے کردیتا ہے ۔ اس کی دکان میں اوزار نظر ہی نہیں آرہے ۔ انہوں نے پوچھا کہ اس کرامت کا راز کیا ہے ۔ اس نے کہا ایک روز ایک بیوہ اپنے یتیم بچوں کے لئے مجبور ہوکر مزوری تلاش کرنے آئی جس پر میں نے اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا اس نے کہا میں نیکوں کی اولاد ہوں ، مجھ پر رحم کرو اللہ تم پر رحم کرے گا ۔
میں نے اس خاتون کا وظیفہ باندھ دیا اور للچانے پر نادم وشرمسار ہوا وار عالم خواب میں ، میں نے حضور اکرم کو دیکھا جو فر فرما رہے تھے تم نے میری اولاد پر رحم کیا اللہ نے اس کے بدلے تم پر آتش جہنم حرام کردی ۔ چاہوتو دنیا میں آزما لو آئندہ آگ کو ہاتھ لگانا وہ تمہیں یہاں بھی نہیں جلائے گی ۔ اے عارف!مید کرتا ہوں کہ قیامت میں بھی جلنے سے ایسے ہی بچ جاﺅں گا ۔
سادات کرام سےد ست بستہ گزارش کروںکہ ان کی رگوں میں رسول ، علی ؑ وبتولؑ کا خون ہے ۔ لہٰذہ آئندہ اپنی اولاد کو پاکیزہ کرداربنائیں ۔ ورنہ بقول میر تقی میر
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
خاص طور پر امریکہ میں رہنے والے سادات کرام سے یہ خصوصی اپیل ہے انشاءاللہ ان کے بچے دوسروں سے اچھے ہوں گے ۔ اور الحمدللہ ہیں ۔ تاہم فرزند نوحؑ کی مثالیں کم ہونی چاہیں ۔ تاہم سادات پر اعتراض کرنے والے ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیا کریں ۔ میں نے روایتوں میں خود دکھا ہے کہ پہلے دو تین صدیوں میں سادات کے پیسنے سے خوشبو آتی تھی انہیں اس علامت کے سبب قتل کردیا جاتا تھا ۔ اس لئے قدرت نے اسے بدل دیا ۔ ایسے سادات کرام کو جانتا ہوں جنہوں نے قبور بنی وآئمہ سے باقاعدہ جواب سلام آتا ہے ۔ بہت سارے سادات کو جانتا ہوں جو دوران مجالس عزاءاپنی جدہ بی بی فاطمہؑ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے ہیں ۔
حضور اکرم نے فرمایا تھا میرے خاندان کے لوگ امت کے امام وقائد ہوں گے ۔ سب کے سب قریش اور سب کے سب ہاشم ہوں گے ۔ کچھ مضمون نگاروں کو یہ اعتراض ہے کہ سادات زیادہ کیوں گئے ؟تو جواب یہ ہے کہ قرآن نے انہیں کوثر یعنی خیر کثیر کہا ہے ہم کون ہوتے ہیں قرآن کے احکام کو بدلنے والے ۔ ابولہب، ابوسفیان، ابن وائل اور ابوجان جیسے کے طعنے کا جواب کثرت ہی سے ہونا چاہئے ۔ آج دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سادات کرام موجود نہ ہوں ۔
میر باقر داماد اصفہانی نے فضائل سادات میں لکھی گئی معرکة الارا: کتاب میں لکھا ہے کہ عراق کا ایک شخص عازم حج ہوا وہ سامرہ پہنچ کر اپنے قافلے سے بچھڑ گیا ۔ اتنے میں سامراءمیں دیکھا ایک خاتون کوڑے کرکٹ کے پاس سے حرام مرضی اٹھا کر گھر لے جارہی ہے ۔ اسن ے پوچھا کہ بی بی کیا آپ مسلمان نہیں ہیں ؟ محترمہ نے کہا کہ مسلمان تو ہوں میرے یتیم بچے آج اگر کھانا نہ کھائیں تو مر جائیں گے ۔ مجبوراً انہیں کھلاﺅں گی ۔ اس کا سنتی حج تھا اس نے اپنی رقم والی تھیلی اس محترمہ کو پکڑا دی اور واپس گھر چلا گیا ۔ اس شرم کے مارے کہ حج پر نہ جاسکا کچھ روز روپوش رہا ۔ جب حاجی واپس آئے تو ہر حاجی نے اس سے شکوہ کیا کہ دوران موسم حج تم ہم سے ناراض رہے اور دور رہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بے حد حیران وپریشان ہوا کہ میں تو گیا ہی نہیں مگر یہ سب مجھے حاجی کہہ رہے ہیں ۔ قیلولے کے لئے سویا تو عالم خواب میں سرکار ختمی مرتبت کو دیکھا ۔ جنہوں نے بھی اسے حاجی کہہ کر سلام کیا اورفررمایا تم نے جس بی بی کو رقم دی وہ سیدانی تھی ، میری نسل سے تھی ، اللہ نے اس کار خیر کے عوض تمہاری شکل کا ایک فرشتہ پیدا کیا ہے جو تا قیامت حج کرے گا اور تمہارے نامہ اعمال میں ثواب جاتا رہے گا ۔ ایسے کار خیر سے واجبی حق قطعاً معاف نہ ہو گا ۔ تاہم سنتی حج کے ترک پر بھی سالانہ حج کا ثواب مل گیا وہ بھی تا قیامت ۔ اللہ ہم سب کو احترام سادات کی توفیق عطا کرے اور اولاد رسول کی توہین کرنے والوں کو ہدایت کرے جو غیر سادات سید بن کر سادات کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اللہ انہیں ہدایت کرے اور قابل ہدایت نہ ہوں تو سزا دے ۔
قارئین!سادات ہمارے احترام کے محتاج نہیں ہیں تاہم ہمیں توہین کرکے دعائے رسول سے محروم نہیں ہونا چاہئے ۔