جناب زینبؑ سلام اللہ علیہ شریکة الحسینؑ

0
829
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

جناب زینبؑ وہ معظمہ ہیں جنہوں نے احیاءاسلام کیلئے اپنے بھائی امام حسینؑ کےساتھ مدینہ چھوڑا اور از ابتداءتا آخر امام کی ہمسفر رہیں سفر کی سختیوں کو برداشت کیا۔ امامؑ کے مقصد سے ہم آہنگ رہیں۔ امامؑ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد اگر جناب زینبؑ نے کربلا تا دمشق امام کے مقصد کی تکمیل کیلئے تمام فرائض نہ سنبھالے ہوتے تو واقعہ کربلا تاریخ کے صفحات میں گُم ہو جاتا، اس لیے آپ ”شریکت الحسینؑ“ کہلاتی ہیں۔اگر امام حسینؑ نے کربلا کے میدان میں بہت سے چراغ روشن کیے تاکہ اسلامی شریعت ہمیشہ کیلئے روشن ہو جائے تو جناب زینبؑ نے ان چراغوں کی حفاظت کی۔ اگر کربلا کے واقعہ کی ابتداءکرنے والے امام حسینؑ تھے تو اسے مکمل کرنے والی جناب زینبؑ تھیں۔
اگر امام حسینؑ نے اعلائے کلمة الحق اور احیاءنے دین کی خاطر اپنا گھر بار لٹایا تو جناب زینبؑ نے نانا کے دین کی خاطر اپنے دونوں بیٹوں عون و محمد کو بھائی پر نثار کر کے صرف ان دو بچوں کی نہیں۔ امام حسینؑ نے اپنا سرد دیا تو جناب زینبؑ نے اپنی چادر دی۔ اگر امام حسینؑ نے کربلا کی تپتی ریت پر تشنہ و گرسنہ ذبح کیا جانا گوارا کیا تو جناب زینبؑ نے کوفہ و شام کے بھرے بازاروں میں بے مقنع و چادر بے کجا دہ اونٹوں پر تشہیر کیا جانا برداشت کیا۔ جناب زینبؑ خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی اور حضرت خدیجؑ کی نواسی اور حضرت ابو طالبؑ اور جناب فاطمہ بنت اسدؑ کی پوتی اور خاتون جنتؑ اور امیر المومنین کی بیٹی تھیں، سرداران جوانان بہشت امام حسن اور امام حسینؑ کی بہن تھیں، خاندان رسالت کی یہ گوہر ایک عظیم ثابت ہوئیں۔ حضرت امام حسینؑ کی پیدائش پر جبرائیلؑ نے رسالت مآبﷺ کو خبر دی تھی کہ امام حسینؑ کو امت شہید کرے گی۔ ابن اثیر تاریخ کامل میں روایت کرتے ہیں پیغمبرﷺ نے قتل حسینؑ کی ایک مٹھی خاک جس کو جبرائیلؑ امین لائے تھے اُم المومنین حضرت اُم سلمیٰ کو دی اور فرمایا کہ جس وقت یہ خون میں بدل جائے سمجھ لینا کہ حسینؑ شہید ہو گئے۔ حضرت اُم سلمیٰؓ نے اس خاک کو ایک شیشی میں محفوظ رکھا۔ جب روز عاشورہ¿ محرم حسینؑ شہید کر دیئے گئے تو یہ مٹی خون میں تبدیل ہو گئی۔
جناب زینبؑ ہجرت کے چھٹے سال پیدا ہوئیں۔ بنی ہاشم اور اصحاب نے بچی کی پیدائش پر مبارکباد دی مگر رسالت مآبﷺ سے ایک مخصوص خبر سُننے کے بعد اہل بیتؑ پر رنج و الم طاری ہو گیا۔ جناب زینبؑ کی ولادت کے وقت کربلا کی المناک داستان اور اس مصیبت کی جو اس بچی پر پڑنے والی تھی پیش گوئی کے طور پر مشتہر ہو گئی۔خود امام حسینؑ اپنے بچپن ہی کے زمانے میں اپنی شہادت اور اپنے آنے والے مصائب سے واقف تھے۔ اسی طرح جناب زینبؑ بھی آنے والے مصائب سے واقف تھیں جناب زینبؑ نے اپنے جد بزرگوارﷺ کے سایہ میں اپنا بچپن گزارا۔ وہ اپنے گھر والوں کی آنکھوں کا نور تھیں۔ (جاری ہے)
شیر خواری کا زمانہ ختم ہوا تو انہوں نے زندگی کا سبق ان ہستیوں سے سیکھا جو بہترین خلائق تھے یعنی جدبزرگوار رسالت مآبﷺ، والد نامدار امیر المومنینؑ اور خاتون جنت جناب فاطمة الزہراءسلام اللہ علیہ ایسا پاک ماحول پرورش اور تربیت کیلئے کسی اور کو سوائے اولاد اہل بیتؑ کہاں مل سکتا تھا۔ جناب زینبؑ ابھی پورے پانچ سال کی بھی نہیں ہونے پائی تھیں کہ ان کے نان اختمی مرتبتﷺ کا وصال ہو گیا۔ ان کے بعد اپنی زندگی رنج و غم میں بسر کرتی ہیں۔ زینبؑ اپنی بیمار ماں کے بستر کے نزدیک ان کی گریہ و زاری میں شریک تھیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ بابا مجھ پر وہ مصیبتیں ڈالی گئیں ہیں جو اگر دنوں پر نازل کی جاتیں تو راتوں کی طرح سیاہ ہو جاتے۔
جناب فاطمة الزہرا تقریباً تین ماہ کے اندر ہی اپنے باباﷺ سے جا ملیں۔ جناب زینبؑ کیلئے یہ دوسرا صدمہ جانکاہ تھا۔ جناب زینبؑ اپنے بھائیوں اور بہن کے مقابلے میں بوجہ اس خاص وصیت کے جو ان کی والدہ نے آخری وقت کی تھی ممتاز تھیں۔ وصیت یہ تھی کہ بیٹی اپنے دونوں بھائیوں کا بڑا خیال رکھنا اور کبھی ساتھ نہ چھوڑنا۔ زینبؑ نے کبھی بھی اس وصیت کو فراموش نہیں کیا۔
جناب زینبؑ کی شادی کا زمانہ آیا تو حضرت علیؑ نے ایسے شخص کا انتخاب فرمایا جو حسب و نسب میں ان کا ہمسر تھا یعنی عبداللہ بن جعفرؑ۔ حضرت جعفرؑ، حضرت علیؑ کے بھائی اور رسالت مآبﷺ کے سچے عاشق تھے۔ ان کو رسالت ما±بﷺ نے شہادت پر ”طیار“ کالقب عطاءفرمایا تھا۔ اس لئے کہ وہ جنت میں فرشتوں کےساتھ پرواز کر رہے ہیں۔ عبداللہ معزز و محترم پاک نفس اور پرہیز گار اور جواد و سخی تھے۔ زینبؑ اور عبداللہﷺ کی شادی نے زینبؑ اور ان کے باپ اور بھائیوں میں جدائی پیدا نہیں کی اور یہ میاں بیوی برابر حضرت علیؑ کےساتھ رہتے تھے جبکہ حضرت علیؑ ان کی نہایت عزت کرتے تھے۔ صفین کی جنگ میں حضرت کے لشکر کے سرداروں میں ایک یہ بھی تھے۔ جناب زینبؑ کی شخصیت کو ان کے بیان کی وضاحت اور قوت گویائی سے سمجھنا چاہیے ،کربلا، بازار کوفہ دمشق اور دربار ابن زیاد اور دربار یزید میں ان کی تقریروں نے جیسا کہ چاہیے پہنچوا دیا۔ یہ خطبہ¿ جرات اور استقلال شجاعت اور استقامت سربلندی اور علوِنفس کے آئینے ہیں جب اسیران حم ابن زیاد کے دربان میں پہنچے تو اس نے جناب زینبؑ کو مخاطب کر کے کہا ”خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم لوگوں کو رسواءکیا تمہیں قتل کیا اور تمہارا جھوٹ ظاہر کر دیا۔
حضرت زینبؑ نے جواب میں فرمایا ”حمد ہے اس خدا کی جس نے ہم کو عزت دی محمد مصطفیﷺ کےساتھ اور ہمیں پاک و پاکیزہ قرار دیا۔ اس طرح جو حق ہے پاکیزہ قرار دینے کا نہ وہ کہ جو تو کہتا ہے۔ رسوا وہ ہوتا ہے جو فاسق و فاجر ہو اور جھوٹ اس کا کھلتا ہے جس کے مد نظر ہمیشہ سچائی نہ رہے اور وہ ہم نہیں ہیں ہمارا غیر ہے۔ پھر ابن زیاد نے کہا ”دیکھا تم نے، اللہ نے تمہارے بھائی اور دیگر عزیزوں کےساتھ کیا کیا؟ خدا نے تمہارے سرکش بھائی اور گھرانے کے دوسرے نافرمان اور باغی اشخاص کو قتل کر کے میرے دل کی مراد پوری کر دی۔
جناب زینبؑ نے متانت سے جواب دیا میں نے تو اچھا ہی دیکھا وہ خاصان خدا تھے۔ جن کیلئے شہادت کا درجہ لکھ دیا گیا تھا اور وہ اپنے پیروں سے چل کر قربان گاہ کی طرف گئے اور وہ دن بھی دور نہیں کہ جب پیش خدا تیرا اور ان کا مقابلہ ہوگا اور تجھ کو اپنے کرتوتوں پر جواب دہی کرنا ہوگی۔ ہاں بے شک تو نے میرے عزیزوں کو قتل کیا ہے۔ میری شاخوں کو کاٹ دیا ہے اور میری جڑ کو اکھاڑ پھینکا ہے اگر تیری مراد اس سے برآگئی ہے تو خوش ہو لے۔
اسیران کربلا کا قافلہ دمشق میں دربار شاہی کے قریب روک دیا گیا تھا پھر دربار میں لے جایا گیا اس وقت سر مبارک امام حسینؑ طشت طلا میں یزید کے سامنے پیش کیا جا رہا تھا۔ اس وقت یزید پلید اپنے ساتھیوں میں بیٹھا شطرنج کھیل رہا تھا اور شراب کے نشے میں دُھت اشعار پڑھ رہا تھا جن کا مفہوم یہ تھا کہ کاش میرے جنگ بدر والے بزرگ زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ دین محمدی کے انصار کس طرح گھر گئے ہیں تو وہ اس صورت میں مجھے دعائیں دینے لگتے۔ بنی ہاشم نے حصول سلطنت کا ایک کھیل کھیلا تھا حقیقت میں نہ کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی۔ یہ سننا تھا کہ جناب زینبؑ کھڑی ہو گئیں اور آپ نے وہ معرکة الآراءتقریر شروع کی جس نے یزید کے جاہ و جلال کی تمام بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا۔ آپ نے فرمایا:
”کتنا سچا ہے میرے پروردگار کا ارشاد کہ آخر میں ان لوگوں کی جو بُرے اعمال کرتے ہیں یہ نوبت پہنچی کہ وہ آیات خداوندی کی تکذیب کرنے اور ان کی ہستی اُڑانے لگے۔ تو نے اے یزید، کیا یہ گمان کر رکھا ہے کہ چونکہ تو نے ہم پر زمین اور آسمان کے تمام راستوں کو بند کرتے ہوئے ہم کو اس حالت پر پہنچا دیا ہے کہ آج ہم تیرے سامنے قیدیوں کی طرح لائے جا رہے ہیں تو اس سے خدا کے نزدیک بھی ہم حقیر اور تو باعزت قرار پا گیا، یا یہ کہ تجھے یہ ظاہری کامیابی تیرے مقرب بارگاہ الٰہی ہونے کی شانوں پر نظر ڈال رہا ہے ،اس لیے کہ اس وقت تجھ کو یہی دکھائی دے رہا ہے کہ دنیا تیرے حکم کی پابند اور امور مملکت منظم اور مرتب ہیں اور سلطنت و حکومت تیرے لیے تمام خطرات سے پاک و صاف ہو گئی ہے۔ کیا تو بھول گیا خدا کے قول کو کہ نہ خیال کریں وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا ہے کہ ہم جو ان کو مہلت دیتے ہیں کہ وہ خوب دل کھول کر گناہ کر لیں۔ بلاآخر تو ان کیلئے حقارت آمیز سزا مقرر رہی ہے۔ کیا اسلامی غیرت اور حمیت اسی کی متقاضی ہے کہ تو اپنی عورتوں بلکہ کنیزوں تک کیلئے پردہ کا اہتمام کرے اور رسول کی نواسیوں کو قید کر کے دربدر پھرائے اور پھر اس پر یہ کہنے کی جرا¿ت کر کے یا تو اپنے مشرک بزرگوں سے داد کا طالب ہے ،گھبرا نہیں تھوڑے ہی دنوں میں تو بھی اسی گھاٹ اُتارا جائے گا اور اس وقت تو آرزو کرے گا کہ کاش تیرے ہاتھ شل اور زبان گنگ ہو جاتی اور تو نے جو کچھ کہا اور کیا وہ نہ کہا نہ کیا ہوتا تیرے لیے اس سے بدتر کیا ہو سکتا ہے کہ روز حشر خدا تیرا فیصلہ کرنے والا، محمدﷺ تیرے مقابلے میں مدعی اور جبرائیلؑ ان کی طرف سے دعویٰ کے گواہ ہونگے۔ اس وقت ان لوگوں کو بھی جنہوں نے تیرے اعمال کی تائید کی ہے اور تیرا ساتھ دے کر تجھے مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط کر رکھا ہے معلوم ہو جائےگا کہ ظالموں کو کیسا برا بدلہ دیا جاتا ہے اگرچہ انقلاب زمانہ نے یہ نوبت پہنچا دی ہے کہ میں تجھ سے بات کر رہی ہوں۔ میری نظروں میں تیری کوئی وقعت نہیں حتیٰ کہ تیری توبیخ و سرزنش کو بھی اپنے لیے ایک بڑی مصیبت خیال کرتی ہوں لیکن کروں کیا دل بھرا ہوا ہے اور کلیجہ میں آگ لگی ہوئی ہے، خدا کی شان کہ خدا پرست افراد شیطانی لشکر کے ہاتھوں قتل ہوں۔ اچھا یزید تجھ کو قسم ہے تو کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھ اور اپنی پوری کوشش کرے اپنی تمام جدوجہد ختم کر دے لیکن خدا کی قسم تو ہمارے ذکر کو اور ہماری زندگی کو فنا نہیں کر سکتا اور نہ ہمارے مقصد کو تو پہنچ سکتا ہے۔ اس خون نا حق کا دھبہ تیرے دامن پر قیامت تک باقی رہے گا اور تو کبھی اس کو دھو نہیں سکتا۔ تیری رائے یقیناً غلط تیری زندگی بہت محدود اور تیرے ارد گرد کا مجمع بہت جلد تتر بتر ہونے والا ہے۔ وہ دن بہت نزدیک ہے جب منادی ندا کرے گا۔ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے، شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمارے پیش رو بزرگوں کا انجام سعادت کےساتھ اور ہمارے آخری بزرگ کاانجام شہادت اور رحمت کےساتھ انجام دیا اور وہی ہمارے لیے کافی اور بہترین ناصر و معین ہے۔
خاندان بنی اُمیہ کا ایک شخص یحییٰ بن الحکم اس صورت حال سے اتنا متاثر ہوا کہ اعلانیہ اس نے اپنے اشعار میں حسینؑ کی شہادت پر اظہار رنج و ملال کیا اور ابن زیاد کو بُرا کہنا شروع کر دیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یزید کی بیوی ہند بنت عبداللہ بن عامر کریزی دربار میں نکل آئی اور کہا اے رسولﷺ کی بیٹی فاطمہؑ کے لال کا سر اور اس طرح؟
جب ملک میں بے چینی کے آثار نظر آنے لگے اور سیاسی طور پر یزید کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اہل بیتؑ نبوت کو قید سے رہا کر دیا گیا اور ان کیلئے ایک مکان خالی کر دیا گیا جس میں دمشق کی خاص خاص گھرانوں کی عورتیں اور بچے آکر اہل بیت کو امام حسینؑ کا پرسہ دینے لگے اور تین دن تک امام مظلومؑ کی مجلس اور ماتم جاری رہا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here