ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
جناب فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا کی پاک و پاکیزہ آغوش میں اولین نورِ الٰہی یا افق امامت کے دوسرے مہتاب درخشندہ امام حسن مجتبیٰ کے نمودار ہوتے ہی پیغمبر اسلام کے گھر کا گوشہ گوشہ ہی نہیں بلکہ تمام کائنات کا ذرہ ذرہ بھی پرور دگار عالم کے نور کی عظمتوں سے منور نظر آنے لگا۔صرف یہی نہیں بلکہ تقویٰ و پرہیز گاری ، عبادت و بندگی اور فضیلت و برکت سے مالا مال رمضان المبارک کے مہینے کی پندرہ تاریخ کو طلوع ہونے والے بدرِ کامل نے عشق خ±دا اور رسول سے سر شار صاحبان ایمان کے لئے حسن عمل کے ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے جناب رسولِ خ±دا ، حضرت علی ؓ، اور فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا کی عظیم آ غوش میںتربیت پائی ،آپ اخلاق حسنہ کا بہترین نمونہ عمل تھے۔
امامِ حسن ؑ کا اخلاق یوں تو امامِ حسن کی حیات طیبہ کا ہر پہلو تعمیری صفات اور درس آموز صلاحیتوں کا بہترین نمونہ ہے، مگر آپ کی زندگی کا سماجی اور اخلاقی پہلو غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے جود و سخاﺅ و عطاءآپؓ کے اخلاق کا اہم ترین جز تھا، ایک دفعہ ایک شخص آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ا±س نے آ پؓ سے مالی امداد کا مطالبہ کیاتو آپ ؓ نے پانچ ہزار درہم اور پانچ سو دینار عنایت فرمائے ا ور اس سے کہا۔ جاﺅ مزدور لاﺅ اور یہ سارا مال اٹھا کر لے جاﺅ، وہ شخص مزدور لے کر آیا تو امام حسنؓ نے اپنی سبز عبا بھی اس شخص کے حوالے کر دی اور اسے فرمایا کہ اس عبا کی قیمت سے مزدور کی مزدوری ادا کر دینا۔ ایک مرتبہ آپؓ سے کچھ لوگوں نے پوچھا اے فرزندِ رسولؓ آپ کبھی کسی سائل کو مایوس نہیں کرتے اس کی وجہ کیا ہے؟
تو امامِ حسن ؓ نے جواب میں فرمایا کہ بارگاہ خ±دا میں میری حیثیت بھی ایک سائل جیسی ہے اور میں یہ چاھتا ہوں کہ خ±دا ونِد عالم مجھے محروم و مایوس نہ فرمائے، اسی لئے مجھے شرم آ تی ہے کہ میں اپنے لئے تو ایسی امید رکھوں اورمیں دوسرے سائلوں کو نا امید کروں۔اس لئے اس سخاوت کی وجہ سے آپؓ کو ” کریمِ اہلِ بیت “کے نام سے یاد کیا جانے لگا تھا۔
معافی و احسان؛۔ اگر کسی آدمی سے کوئی غلطی سر زد ہو جاتی تو امام حسن ؓ اسے فوراً معاف کر دیتے تھے ،اگر کوئی شخص آپؓ سے بد اخلاقی کرتا تو آپؓ اس کے گناہ کو احسان اور نیکی میں بدل دیتے،روایات میں ہے کہ آپؓ کے گھر میں ایک خوبصورت گوسفند تھی، آپؓ اسے بے پناہ چاہتے تھے ایک دن آپ نے دیکھا کہ اس گوسفند کا ایک پاﺅں ٹوٹا ہوا ہے، تو آپؓ نے اپنے ایک غلام سے پوچھا کہ اس گوسفند کا پاﺅں کس نے توڑا ہے تو اس غلام نے دست ادب باندھ کر عرض کی مولا آپؓ کو رنجیدہ خاطر کرنے والا یہ غلام ہے۔ امامِ حسن ؑ نے مسکراتے ہوئے اس غلام سے کہا ، میں اس کے بدلے میں تجھے خوشحال دیکھنا چاہتا ہوں اور تجھ پر مزید احسان کرنے کا خواہاں ہوں، پس جا میں نے تجھے اپنی غلامی کی زنجیر سے تجھے آزاد کر دیا ہے۔(جاری ہے)
تواضع و انکساری؛۔ نادار، مفلس اور محروم طبقے کے لوگوں کی ہم نشینی اختیار کرنا اور ان کے سامنے فروتنی و انکساری سے کام لینا امام حسنؓکے اخلا قی صفات کا اہم جز تھا۔ منقول ہے کہ ایک دن امام حسنؓ نے دیکھا کہ غریب اور پسماندہ لوگوں کی ایک جماعت سڑک سے کچھ دور کھانا کھانے میں مصروف ہے ، جب ان فقیروں نے امام حسنؓ کو دیکھا تو آپ کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی اور امام حسن ؓ نے ان فقیروں کی خواہش کا احترام کیا اور ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گئے اور ارشاد فرمایا کہ اللہ توالیٰ مغرور اور متکبر افرادسے ہرگزمحبت نہیں فرماتا، اس کے بعد امام حسنؓ نے ان فقیروں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور جب و ہ آپؓ کے دولت کدہ پر تشریف لے آئے تو آپ نے انہیں کھانے پینے کا سامان اور کپڑے عطا فرمائے۔
خوفِ خ±دا؛۔ امام حسن ؓ کی عباد ت کا معیار و خلوص اس درجہ تھا کہ لوگوں نے ہمیشہ آپؓ کو عبادت خ±دا میں مشغول دیکھا منقول ہے کہ وضو کرتے وقت آپؓ کی حالت دگرگوں ہو جاتی اور آپ کے چہرہ مبارک سے غیر معمولی خوف جھلکنے لگتا، پھر آپؓ پر لرزہ کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی چنانچہ لوگوں نے جب امام حسن ؓسے اس خوف کا سبب معلوم کیا تو آپؓ نے فرمایا۔ جو شخص رب العالمین کے سامنے کھڑا ہونا چاہتا ہے اس کے چہرے کا رنگ تبدیل اور اس کے جسم میں رعشہ و لرزہ پیدا ہونا لازمی امرہے۔ اسی طرح حالت نماز میں بھی آپؓ کے چہرے پر جہاں خشوع و خضوع کے آثار دکھائی دیتے وہاں خوف خ±دا کی وجہ سے آپؓ کے جسم کے ہر جوڑ میں تھرتھرہٹ پید ا ہو جاتی تھی۔
صبر و بردباری؛۔ مصائب و مشکلات اور پریشانیوں کے مقابلہ میں صبر و بردباری سے کا م لینا بھی امام حسن ؓ کے اخلاقی و کمالات کا ایک اہم حصہ تھا، ایک دفعہ اہل شام میں سے ایک شخص نے آپؓ کو بہت برا بھلا کہا مگر آپؓ نے اس شخص کی لعنت و ملامت پر اپنی خاموشی برقرار رکھی، اور صبرو تحمل سے کام لیتے ہوئے اس شخص کو کچھ بھی نہ کہا، ،تھوڑی دیر بعد جب اس شخص نی آپؓ کو برا بھلا کہنا بند کیا تو انے آگے بڑھ کر اس شخص کو سلام کیا اور فرمایا،۔۔ اے شیخ ! ایسے معلوم ہوتا ہے کہ تم اس شہر میں مسافر آئے ہوئے ہو، اس لئے اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو یا کوئی حاجت ہو تو بلا تا خیر بیان کردومیں اسے فوراً پورا کر دیتا ہوں، نیز بہتر ہو گا کہ تم اس شہر میں جتنے دن بھی رہو میرے گھر میں مہمان بن کر رہو۔ جب اس مرد شامی نے امام حسن ؓ کے ان کلمات کو سنا تو اس پر گریہ طاری ہو گیا ، اور بے ساختہ اس کی زبان سے یہ جملہ نکل پڑا کہ ، یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؓ اللہ کے زمین میں خلیفہ ہیں اوراللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ رسالت و خلافت کو کہاں قرار دے۔
عبادتِ خ±دا؛۔ امام حسن ؓ کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ آپ ہر شب سورہ کہف کی تلاوت فرماتے اور فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی ذکر خ±دا میں مشغول رہتے، جب تک سورج طلوع نہ ہو جاتا، ،آپ ؓ ذکر الہٰی کے علاوہ کسی سے کوئی کلام نہیں کرتے تھے، آپ ؓ انتہائی شوق و سکون کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے، تلاوت کے دوران جب آپ ؓ ایسی آیت مبارکہ تک پہنچتے جس میں مﺅمنین سے خطاب کیا گیا ہے۔ تو آپ ؓ ارشاد فرماتے، مسجد کے دروازے کے قریب پہنچ کرآپ ؓ اپنا سر آسمان کی طرف بلند کر کے یہ دعا کرتے کہ؛۔ ” بار الہٰا ! تیرا مہمان تیرے دروازے پر کھڑا ہے اے نیکو کار لوگوں کے پروردگار ! تیرا گنہگار بندہ تیری بارگاہ میں کھڑا ہے پس اے رب کریم تیرے کرم کا تقاضہ یہی ہے کہ میرے برے اور نا پسندیدہ کاموں کو نظر انداز فرما دے۔
امام حسنؓ کے زہد و تقوٰی کا یہ عالم تھا کہ آپؓ دنیا کی طرف کبھی راغب نہ ہوئے، اور دنیا کی رعنائیوں سے آپؓ کو ہرگز کوئی دلچسپی نہ تھی چنانچہ آپؓ فرمایا کرتے تھے ،۔” خشک روٹی کے ٹکڑے سے میری بھوک مٹ جاتی ہے، تھوڑے سے پانی سے میں اپنی پیاس بجھا لیتا ہوں ایسے کم قیمت کپڑے سے میں اپنا جسم چھپاتا ہوں کہ زندہ رہوں تو وہ میرا لباس رہے اور مر جاﺅں تو میرا کفن بن جائے۔
امام حسن ؓ کی سیاسی تحریک؛۔ آپؓ نے کفر و الحاد اور الہٰی قیادت پر غاصبانہ تسلط کے خلاف اپنی جد و جہدفرمائی تا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح وہ اللہ کے دین کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔ آپ ؓ نے تاریک اور آلودہ ماحول میں اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کے خلاف جو روش اختیا ر کی وہ انتہائی مﺅثر اور مناسب ثابت ہوئی، آپ ؓ نے اپنے علم ا خلاق اور اپنی مثالی بردباری کے ذریعہ الہٰی راستے یعنی راہ اسلام کی مخالفت کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ فرمایا اس طرح آپ ؓ اسلام کی حیات کی ضمانت بن گئی ، کیونکہ امام حسن ؓ نے اپنے محاذ صلح سے دشمن کو کھلی ہوئی شکست سے دو چار کر دیا، نیز ان خطرات کو بھی ختم کر دیا جو اسلام کی بنیادوں کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔
امام حسن کی شہادت:-28 صفر کو یوم شہادت امام حسن مجتبیٰ ہے۔حاکم شام نے آپ کو زہر ہلاہل دلوا کر شہید کروایا۔جبکہ کریم اہل بیت ؓ کا جنازہ نانا کے جوار میں تدفین کے لئے لے جایا گیا تو حاسدوں نے نہ فقط جنازہ دفن نہ ہونے دیا بلکہ اٹھارہ تیر برسائے۔امام حسین ؓ اور آپ کے دیگر بھائیوں ، رشتہ داروں نے جسم اطہر کو جنت البقیع میں دفن کیا۔جہاں آل سعود نے آپ کے روضے کو مسمار کر دیا تھا۔
٭٭٭