بائیڈن / ٹرمپ کے فٹنس ٹیسٹ کا مطالبہ زور پکڑ گیا

0
12

واشنگٹن (پاکستان نیوز) امریکہ کے صدارتی انتخابات قریب آنے پر جہاں دونوں صدارتی امیدوار جوبائیڈن اور ٹرمپ اپنی اپنی فتح کے لیے پر عزم ہیں وہیں ان کی فٹنس اور اہلیت پر عوام کے شکوک شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے ، ری پبلکنز اور ڈیمو کریٹس کی ایک بڑی تعداد نے دونوں عمر رسیدہ امیدواروں کی ذہنی ، علمی ، جسمانی فٹنس کی تشخیص کا پر زور مطالبہ کیا ہے ۔امریکی مین اسٹریم میڈیا میںآئے روز ان دونوں عمر رسیدہ امیدواروں کی فٹنس بارے شکوک شبہات کا نہ صرف کھلم کھلا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی بڑھتی عمروں کے ساتھ منسلک مسائل کو ملکی سلامتی کیلئے ایک بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے نزدیک بائیڈن کے موجودہ دور میں کئی ایک موقعوں پر ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے بائیڈن کی ذہنی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح دوسری جانب ٹرمپ بھی اکثر اپنے جلس جلوسوں میں ایسے واقعات کا اکثر شکار ہوتے نظر آتے رہے ہیں۔ خاص کر صدر بائیڈن کے حالیہ مباحثے میں سوال و جوابات کے سیشن میں اونگھنے ، صدر جو بائیڈن نے ایک مرتبہ پھر اصرار کیا ہے کہ وہ انتخابی دوڑ سے دستبردار نہیں ہو رہے جبکہ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے ان کے پارکنسن کی بیماری میں مبتلا ہونے کے خدشات کو رد کر دیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق 81 سالہ جو بائیڈن نے اپنی سیاسی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی میں ناقدین سے کہا کہ آئندہ ماہ شکاگو میں ہونے والے پارٹی کنونشن میں انہیں چیلنج کریں یا پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ان کی حمایت کریں۔جو بائیڈن نے کانگریس کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ‘میں انتخابی دوڑ میں رہنے کے لیے پْرعزم ہوں،انہوں نے مزید کہا کہ یہ اکھٹے ہونے کا وقت ہے۔ ایک متحد پارٹی کے طور پر آگے بڑھتے ہوئے ڈونلد ٹرمپ کو شکست دینے کا۔اسی دوران جو بائیڈن نے امریکی ٹیلی ویژن چینل ایم ایس این بی سی کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘پارٹی میں موجود اشرافیہ سے بہت زیادہ مایوس ہیں، انہوں نے مزید کہا ان میں سے جس کا بھی خیال ہے کہ مجھے انتخاب نہیں لڑنا چاہیے، وہ میرے خلاف لڑیں۔ صدارتی امیدوار کا اعلان کریں اور مجھے کنونشن میں چیلنج کریں۔دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ان کے خیال میں جو بائیڈن دباؤ برداشت کریں گے اور دوڑ میں شامل رہیں گے۔ ‘ان کی انا ہے اور وہ دستبردار نہیں ہونا چاہتے، کانگریس رکن ایڈم سمتھ ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے چھٹے سینیئر عہدیدار ہیں جنہوں نے عوامی سطح پر جو بائیڈن سے دستبردار ہونے کا کہا ہے۔ایڈم سمتھ نے ٹی وی چینل سی این این کو بتایا ‘میرے خیال میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ ڈیموکریٹس کا پیغام پہنچانے کے لیے (بائیڈن) بہترین شخص نہیں ہیںتاہم ڈیموکریٹ جماعت کے دیگر سینیئر ارکان نے جو بائیڈن کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ایوان نمائندگان میں اقلیتوں کے لیڈر حکیم جیفری نے سی این این کو بتایا ‘میں نے صدارتی مباحثے کے بعد واضح کر دیا تھا کہ ڈیموکریٹک ٹکٹ پر صدر جو بائیڈن کی حمایت کرتا ہوں۔ میرامؤقف تبدیل نہیں ہوا۔دوسری جانب پیر کو وائٹ ہاؤس میں میڈیا بریفنگ کے دوران پریس سیکریٹری کیرن جین پیری کو صحافیوں کی جانب سے مشکل سوالات کا سامنا رہا۔پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا جو بائیڈن پارکنسن کی بیماری کا شکار ہیں جس کا انہوں نے نفی میں جواب دیا۔صحافیوں نے اصرار کیا کہ پریس سکیریٹری تصدیق کریں کہ پارکسن کے ماہر آٹھ مرتبہ وائٹ ہاؤس آئے ہیں۔وائٹ ہاؤس آنے والوں کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ والٹر ریڈ نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر جہاں صدر بائیڈن کا طبی معائنہ ہوتا ہے، وہاں کے نیورولیجسٹ کیون کینارڈ وائٹ ہاؤس آئے تھے۔صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا صدر بائیڈن کا پارکنسن بیماری کا علاج ہو رہا ہے یا وہ پارکنسن کی ادویات لے رہے ہیں۔بعد ازاں پیر کی رات کو وائٹ ہاؤس نے جو بائیڈن کے ذاتی معالج ڈاکٹر کیون او کونر کی جانب سے خط جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ تین سالانہ طبی معائنوں کے علاوہ صدر نیورولاجسٹ کے پاس نہیں گئے۔جنوبی کیرولائنا کے سینیٹر لنڈسے گراہم نے اتوار کے روز اپنی آواز کو ایک کورس میں شامل کیا جس میں جو بائیڈن کے لیے علمی اور جسمانی تشخیص کا مطالبہ کیا گیا تھا ـ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر کے لیے بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا۔ریپبلکن قانون ساز نے مستقبل کے تمام صدارتی امیدواروں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی ایسے ٹیسٹ کی سفارش کی جو صدر یا نامزد امیدوار سے عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک کے لیے ایک ویک اپ کال ہے،ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جو لوگ جانشینی کی صف میں شامل ہونے جا رہے ہیں وہ سنگین حالات میں کمانڈر انچیف بننے کے اہل ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here