” بھٹو اور بینظیر کے قتل کی تحقیقات قومی بقا کی ضرورت ”

0
181
پیر مکرم الحق

آج پاکستان کے حالات سوالات کو جنم دے رہے ہیں کہ کیا ہمارے کمزور عدالتی نظام، اقتدار پر مارشلائی قبضوں، اور آئین وقانون کی بالادستی کو قائم رکھنے میں ناکام ہیں ، موجودہ حالات پیدا کرنے کے باعث بنے ہیں یا ہماری مضبوط اور اہل سیاسی قیادت کو محلاتی سازشوں کے ذریعے راستے میں ہٹا کر انکی جگہ نااہل بدعنوان اور کمزور قیادت کو اقتدار میں لاکر ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا گیا ہے۔بین الاقوامی سازشوں سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اپنے طاقتور حلقوں کو ان سازشوں کو عملی جامعہ پہنانے کا ذمہ دار قرار نہیں دیکر ہم اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے۔بیرونی دشمن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک اندرونی امداد میسر نہیں ہوئی۔تاریخ گواہ ہے کہ گھر کو ہمیشہ گھر کے چراغ سے ہی آگ لگتی ہے بدلتے وقت کے ساتھ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک دور اندیش اور ذہین رہنما تھے۔انہوں نے جو مستقبل کیلئے منصوبہ بنائے تھے وہ بیرونی آقائوں کو نہیں بھاتے تھے اور اسی لئے پہلے انہیں لجھانے کی کوششیں کی گئی پھر ڈرانے دھمکانے سے بھی باز نہ آئے لیکن جب سارے حربے ناکام ہوئے تو پھر انہیں مستقل طور پر راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔جس کا واحد طریقہ ملک کی طاقت ور ترین فورس کے کمانڈر کو اس سازش میں شریک کرنا تھا جو کیا گیا تھا۔یہ کمانڈر خوشامدی، بدغلا اور منافق جنرل ضیاء الحق ہی تھا جس نے دشمنوں کی سازش کو عملی جامعہ پہنایا جس کے لئے ایسے صبح کو تلاش کیا گیاا جو مولوی مشتاق کی صورت میں انہیں میسر ہوگیا۔مولوی مشتاق کو ذوالفقار علی بھٹو سے شدید نفرت بھی کیونکہ انہوں نے مولوی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اسے ترقی دینے سے انکار کردیا تھا۔اپنی ذاتی مخاصمت اور عناد کی بنیاد پر اس منحوس شخص سے ذوالفقار علی بھٹو جیسی عظیم شخصیت پاکستان کے جلسے متفقہ آئین کے بانی اور اسلامی دنیا کے متفقہ رہبر کو پھانسی کا حکم سنا دیا جس پر دنیا بھر کے قانونی ماہرین نے شدید تنقید کی اور اس فیصلے کو قانون کے عالمی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے پہلے ملک کو چھوڑنے اور سیاست سے دستبردار ہونے کے بدلے انہیں زندہ رہنے کی آفر دیگئی۔لیکن انہوں نے اپنی دھرتی چھوڑنے پر موت کو ترجیح دی اور ذلت کی زندگی پر آبرو مندانہ خاتمہ قبول کیا۔اسی لئے آج تک وہ پاکستان کی عوام کے دلوں میں اعلیٰ رتبہ رکھتے ہیں۔آج تاریخ نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت پاکستان کی مقبول ترین قیادت تھی۔انکی شہادت کے بعد انکی جواں عمر بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کی جماعت پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالی اپنے سیاسی سفر کے آغاز سے ہی انہیں کئی دشواریوں کا سامنا آیا جنہیں اردو بھی ٹھیک سے بولنے نہیں آتی تھی۔پھر انکے والد کے قریبی دوست جنہیں کل تک وہ انکل کہتی تھیں وہ آج انکے نیچے جب پارٹی کے عہدیداران بنے تو ان انکلوں کو بہت تکلیف ہوئی کہ ہم اتنے تجربہ کار سینئر سیاسی رہنما کیسے ایک چھوٹی عمر کی ناتجربہ کار بچی کی قیادت کو تسلیم کریں۔اس لئے ناراض انکلوں نے ایک ایک کرکے اپنے عظیم قائد کی بیٹی کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑ کر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کسی مسجدیں بنانا شروع کردیں۔لیکن پھر بھی بینظیر کے قدم نہیں ڈگمگائے اپنی ضعیف العمر ماں کا ہاتھ تھامے انہوں نے ضیاء الحق کو للکار دیا جس کے عیوض انہیں سر پر ڈنڈنے پڑے دونوں ماں بیٹیاں ایک جابر آمر کے سامنے ڈٹ گئیں جیلوں نظر بندیوں کی صعوبتیں بھی جھلیں۔سکھر جیل میں شدید گرمی میں نظر بند تھیں تو شدید گرمی کو محسوس کرتے ہوئے عوامی تحریک کے رہنما فاضل راہو صاحب نے انہیں برف کی سیل بھیجی کہ بی بی یہ اپنے سیل میں رکھیں تاکہ گرمی کی شدت میں کمی ہوپائے۔لیکن بی بی نے یہ کہہ کر برف کی سیل لوٹا دی کہ آمر کو یہ پیغامم نہ ملے کہ میں کمزور پڑ گئی ہوں۔انہوں نے بلا کی گرمی اور سکھر کے مچھروں کو برداشت کیا لیکن اس ناز ونعم میں پلنے والی بہادر بابا کی بہادر بیٹی نے ظلم وستم کے سامنے سے جھکنے سے انکار کردیا۔پھر ایک اور آمر جنرل مشرف سے بھی ٹکرائی جب وطن بحری سے لوٹیں تو مشرف نے منع کیا کہ واپس نہیں آئیں میں آپکی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتا۔حالانکہ بطور ملکی سربراہ فوجی سربراہ اگر مشرف چاہتا تو بہترین سکیورٹی مہیا کرسکتا تھا لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے محترمہ کو شہید کروا دیا گیا آج اس ظالم کا حشر دنیا دیکھ رہی ہے۔سسک سسک کر اپنے انجام کو پہنچا جارہا ہے ،ذوالفقار علی بھٹو اور انکی بہادر بیٹی کے قتل کی تحقیقات ملک اور قومی بکا کیلئے نہایت ضروری ہے ورنہ ایسے عہدیداران وطن پھر بھی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here