ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے!!!

0
156
جاوید رانا

سابق صدر ایوب خان کا دور حکومت تھا، پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف اُن کے بھائی سردار بہادر خان نے حزب اقتدار پر اس کی پالیسیوں اور حکومتی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک شعر پڑھا تھا۔ ”برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلّو کافی تھا، ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا” ماضی کے شاعر شوق بہر انچی کا یہ شعر آج چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آج کی بدبودار ترین اور سڑی بُسی سیاست پر پورا اُترتا ہے۔ فرق یہ ہوا ہے کہ ماضی کی سیادت میں دھونس، دھمکیاں اور خود غرضی فریقین کی ذات اور سیاست تک محدود رہی تھی لیکن آج اس کا دائرہ خاندانوں حتیٰ کہ مخالفین کے بیڈ رومز اور واش رومز تک وسعت اختیار کر گیا ہے۔ غلاظت، بیہودگی اور فحاشی کو بنیاد بنا کر مخالفین کو مطعون کرنے سے کوئی گریز نہیں کیا جاتا اور اس میں کسی فرد، جماعت اور سیاسی گروہ کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی ہے۔عمران خان کیخلاف عدم اعتماد اور اقتدار سے محروم کئے جانے اور اس کے بعد سے اب تک کے سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ وطن عزیز کی بربادی اور ناگفتہ با صورتحال کیلئے کوئی انفرادی کردار، ادارہ یا جماعت ہی نہیں بلکہ وطن عزیزکے شجر کی ہر شاخ پر بیٹھے ہوئے ذمہ دار و مقتدر بہ الفاظ دیگر اُلّو بغض عمرانیہ میں وطن کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ عمران خان سے جان چھڑانا امریکی سازش کے تناظر میں تھا یا نہیں اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ اقدام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا لیکن دعویداری کے باوجود وسیع تجربے کے حامل بھان متی کے کنبے سے حالات مزید خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ سیاسی، معاشی، عوامی ابتری اور حکومتی انتظامی، ریاستی، آئینی و قانو جانبداریوں کے بارے میں تو قارئین بخوبی واقف ہیں لہٰذا اختصار کرتے ہوئے ہم سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا حوالہ دینا چاہیں گے، پیپلزپارٹی اکثریت سے جیت تو گئی لیکن مخالفین تو کُجا خود اس کے حلیف ایم کیو ایم اور جے یو آئی یو آئی انتخابی نتائج پر برہم ہیں شنید تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پی پی پی معاہدہ منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے اور لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کے مصداق ایم کیو ایم، پی ٹی آئی کے چرنوں میں آنے کو تیار ہو گئی ہے۔ ادھر بلوچستان کے ارکان پارلیمنٹ وزیراعظم سے شکوہ کناں ہیں اور واپسی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ سوچیئے دو اراکین کی اکثریت پر قائم وفاق میں حکومت کا مذکورہ بالا حالات میں کیا مستقبل ہو سکتا ہے۔ کیا ان حالات میں نیوٹرل کا سہارا کسی کام آسکے گا۔
دوسری طرف تمام تر حکومت کی سازشوں چیرہ دستیوں، ذاتی رکاوٹوں اور دُشواریوں کے باوجود کپتان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ کپتان کے گھر پر جاسوسی کا بدترین اقدام تازہ ترین واقعہ اور گھر کے ملازمین کو ملوث کیا جانا کسی بھی طریقے سے جائز نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کا ملوث ملازم کو معاف کر دینا اعلیٰ ظرفی کی زریں مثال ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ متعلقہ جس انٹیلی جنس ایجنسی سے یہ کام کرایا گیا وہ اس کام کو طریقے سے نہ کر سکی اور کپتان کیخلاف جس نے بھی یہ حرکت کی وہ ذلیل ہوا۔ سچ ہے جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، کپتان اس حوالے سے بھی سرخرو ہوا۔
ہم نے بالا سطور میں عرض کیا ہے کہ کپتان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کی پاکستان اور بیرون ملک میں پاکستانیوں کی مقبولیت اور محبت کے شواہد نہ صرف عوام کے چینلز اور سوشل میڈیا پر جذبات کے اظہار کے سامنے آرہے ہیںبلکہ گزشتہ اتوار کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کی پی ٹی آئی میں شمولیت بھی ہے۔ جنرل ظہیر الاسلام کا جملہ”میں ایکچوئل نیوٹرل ہوں اور بہتر سسٹم کی حمایت ترجیح ہے”۔ یقیناً نیوٹرلز کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ کپتان کو نہ صرف موجودہ نا اہل برآمدی حکومت کا جس نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور آئی ایم ایف (امریکہ کی معاشی لونڈی) کی شرائط کی تکمیل کیلئے تنخواہ دار کو بھی نہیں بخشا ہے، مقابلہ ہے بلکہ ان اداروں سے چومکھی کا سامنا ہے جو کپتان کو الیکشن بلکہ سیاست سے بھی بے دخل کرنے کے درپے ہیں۔ لیکن دَھن کا پکا عمران خان تمام تر مخالفتوں، رکاوٹوں اور موشگافیوں کو روندتا ہوا اپنے مشن پر گامزن ہے۔ سوات میں منعقدہ انتخاب میں تمام مخالف جماعتوں کے امیدواروں کیخلاف پی ٹی آئی کی فتح، لاہور میں ایک ہی روز میں چار ورکرز کانفرنس سے خطاب جنہوں نے جلسوں کی شکل اختیار کر لی اور 2 جولائی کو پریڈ گرائونڈ میں خطاب اور تمام بڑے شہروں میں اجتماعات کے علاوہ لاہور کے ضمنی انتخاب کی مہم کیساتھ سلسلۂ جدوجہد اور اس میں عوام کا بھرپور اشتراک و عمل کا عزم و اظہار یکجہتی عمران کے عزم و استقلال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ہمارا تجزیہ کچھ اس طرح ہے کہ جولائی کا مہینہ سیاسی حوالے سے نہایت کشاکش محاذ آرائی، اداروں کے درمیان کشیدگی کا باعث ہو سکتا ہے۔ ایک جانب حکمران اتحاد کی موجودہ پالیسیوں اور فیصلوں کے باعث عوام میں مقبولیت مزید کم ہوگی دوسری جانب حلیفوں کے مطالبات اور پنجاب میں ضمنی انتخاب کے انعقاد پر آئینی دُشواریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ عمران خان اپنی جدوجہد کو تیز ترین کرتے ہوئے بھرپور انداز سے خصوصاً 17 جولائی کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس تمام تر صورتحال میں اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ متعلقہ آئینی و ریاستی اداروں سے جن پر تحریک انصاف کو شدید قسم کے تحفظات ہیں تنازعہ کی صورت پیدا ہو خصوصاً پنجاب کے انتخابات میں کسی بھی قسم کی بے اعتدالی، حکومتی و انتظامی دخل اندازی نہ صرف شدید اضطراب بلکہ محاذ آرائی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ بلکہ صوبہ پنجاب اور وفاق میں بحران کے آثار بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کو دیکھ کر دوران انتخابات پنجاب میں لاء اینڈ آرڈر اور محاذ آڑائی بھی بعید از قیاس نہیں۔ کپتان پہلے ہی الیکشن کمیشن اور پنجاب کی جعلی حکومت و انتظامیہ پر اپنے تحفظات کر رہا ہے جبکہ موجودہ حکومت پنجاب کی بقاء کا دارومدار آنے والے انتخابات میں جیت پر ہے۔ پنجاب ہائیکورٹ نے ریزروسیٹس کے حوالے سے فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں کر دیا ہے لیکن پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد سے نتائج اگر ن لیگ کے حق میں آتے ہیں تو حالات انتہائی مشکل کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں۔عوامی سپورٹ اور عمران خان کے عزم کو دیکھتے ہوئے کامیابی تو پی ٹی آئی کی نظر آتی ہے تاہم یقینی کچھ بھی نہیں کیونکہ ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، اللہ ہمارے گلستان (وطن) کا انجام بہتر ہی رکھے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here