افغانستان سے پاکستان کو خطرات لاحق !!!

0
126
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان کو ہندوستان سے نہیں افغانستان سے خطرات لاحق ہیں جو پختونخواہ اور پنجاب کے بعض علاقوں پر اپنا ماضی کا حق مبتلا رہا ہے یاد رکھیں کہ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا جبکہ ایران نے پاکستان کو پہلے دن بھی تسلیم کرلیا تھا یہی وجوہات ہیں کہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے تعلقات سرد مہری کے شکار رہے ہیں چونکہ ہندوستان کے ساتھ پاکستان کی دو جنگیں ہوچکی ہیں جس میں ہندوستان نے پاکستان کے قبضہ کردہ علاقوں کو مقاصدہ تاشقند اور شملہ معاہدہ کے تحت چھوڑا ہے اگر وہ چاہتا تو وہ بھی اسرائیل کی طرح پاکستان کے علاقوں پر قابض رہتا مگر ایسا نہ ہوا ہے۔ برعکس افغانستان مسلسل پاکستان کے موجودہ چارسدہ، مردان سے لے کر چکوال اور جہلم تک اپنا حق جتواتا چلا آرہا ہے کہ یہ علاقے میرے ہیں جن کو ڈیو رنڈ لائن کے تحت99سال تک رکھنے کی اجازت تھی لہٰذا یہ علاقے ہمارے واپس کیے جانے چاہئیں، وہ پاکستان کے پیدا کردہ طالبان کی حکومت کیوں نہ ہو جس کا مظاہرہ آج ہو رہا ہے کہ وہ طالبان جن کو پاکستانی جنرلوں نے پالا پوسا تھا ،ہتھیار فراہم کرکے دہشت گردی سیکھائی تھی وہ آج پاکستان کو آنکھیں دیکھا رہے ہیں جن کے ہاں دہشت گردوں کو تیار کرکے پاکستان بھیجا جارہا ہے جن کو پاکستان کی بعض مذہبی اور عمران خان کی حمایت حاصل ہے جنہوں نے پاک فوج کے خلاف نو مئی کو بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جس میں فوجی اداروں تنصیبات اور یادگاروں پر حملے ہوئے ہیں تاہم پاکستان نے جو بویا تھا، اسے آج کاٹا جارہا ہے ،وہ افغان جہاد جو آج مکمل طور پر فساد بن چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان تباہ وبرباد ہوچکا ہے، ملک میں دہشت گرد کا دور دورہ ہے ،اسی ہزار پاکستانی شہری اور چھ ہزار پاک فوج کے جوان شہید ہوچکے ہیں۔ ملک کی معیشت دہشت گردی کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوچکی ہے یہاں ابھی بھی پچاس لاکھ افغان مہاجرین ملک کی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں جس کے باوجود بعض جنرل طبقہ افغان مہاجرین کے خامی ہیں جن کا اسلحے اور ڈرگ کا کاروبار پاکستان کے کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے جو پاکستان کو اپنا ماضی کا مفتوحہ علاقے تصور کرتے ہیں جن کے آبائو اجداد نے صدیوں پہلے پاکستان کے موجودہ علاقوں کو فتح کرکے قبضہ کیا ہوا تھا جس کو مہاراجہ انجیت سنگھ نے اٹھارویں صد ی میں چھڑایا تھا۔ اگر افغانوں کے مطالبے کو مان لیا جائے ڈیوریڈ لائن کے مطابق چارسدہ، مردان، سے لے کر چکوال اور جہلم تک کے علاقے واپس افغانستان کو کر دیئے جائیں تو پھر اس خطے کا جغرافیائی نقشہ مکمل طور پر بدل جائے گا کہ اس خطے میں مختلف ادوار میں مختلف حکمران گزرے ہیں۔ دو ہزار سال پہلے کا بل پر اشوک اعظم کا قبضہ تھا جب افغانستان بدھ مت کا تھا بعدازاں مغلوں کے دور میں جو بھی کابل ہندوستان کا حصہ گڑھ جن کی بادشاہت کا مرکز دھلی تھا۔ 1847ء تک راجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں جلال آباد ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور وغیرہ تخت لاہور کے ماتحت تھے لہٰذا ماضی کی جنگ وجدل یا لشکریت پرستی کے تحت ملکوں کے کوئی جغرافیائی حدیں نہ تھیں جس کی طاقت تھی وہ کسی بھی علاقہ کا قابض کہلاتا تھا جس طرح ہندوستان پر سات سو سال تک عربی ترک، ایرانی، افغان، چنگیزی، حملہ آور قابض رہے ہیں جن میں غوریوں، غزنویوں، سوریوں، لودھیوں، نادریوں، عبدالیوں اور نہ جانے کن کن حملہ آوروں کا مرکز کا تھا جبکہ وہ ہندوستان پر قابض تھے لہٰذا افغانوں کا مطالبہ کہ ڈیورنڈ لائن سے پہلے والے علاقوں کو واپس کیا جائے تو پھر کاہل بھی ہندوستان کو واپس کرنا پڑے گا جوکہ ایک احمقانہ مطالبہ ہے جس سے علاقے میں ماسوائے کھنچائو کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔ بہرحال پاکستان کے جرنیلی حکمت عملی نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آج افغانستان بھی پاکستان کے علاقوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے جو کل کلاں ہندوستان کے لئے بھی یہ مطالبہ بن جائے گا کہ موجودہ پاکستان1947سے پہلے ہندوستان کا حصہ تھا لہٰذا اسے واپس ہندوستان دیا جائے تو پھر پاکستان کا کیا بنے گا لہٰذا اقوام متحدہ کے مطابق ہر ملک کی سرحدیں قائم ہیں جو اپنے اپنے علاقوں پر مشتمل ملک کہلاتے ہیں جن کی ایک انچ بھی ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ دیکھنا چاہئے بہتر یہی ہے کہ اچھے تعلقات قائم ہوں تو تمام مسائل حل ہوجاتے ہیں جس پر ا فغانستان کو غور کرنا پڑے گا جس میں توسیع پسندی بند کرنا ہوگی۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here