حکومتی حلقے اطلاع دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے نگران انتظامیہ کے لئے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے۔وزیر اعظم کی مشاورت میں پی ڈی ایم کی ایک درجن جماعتیں، پیپلز پارٹی اور ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ نواز کے لوگ شامل ہیں۔مشاورت کا یہ عمل بظاہر خوش آئند ہے۔آئین کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم نگران حکومت کے لئے لیڈر آف اپوزیشن سے مشاورت کریں گے اس لئے راجہ ریاض بھی اس مشاورتی عمل کا حصہ ہوں گے۔اس امر کو سر دست مشاورت کرنے والے اہمیت دینے کو تیار نہیں کہ ان کی جانب سے جو انتظامیہ بطور نگران حکومت کے کام کرنے کے لئے تجویز کی جائے گی کیا وہ پی ڈی ایم حکومت کے پیدا کردہ سیاسی تنازعات سمیٹ کر ملک میں شفاف ،دھاندلی سے پاک اور قابل بھروسہ انتخابات کرانے کا بنیادی فریضہ انجام دے پائے گی۔ نگران کابینہ کے ارکان کے پاس کچھ استثنی کے ساتھ وہی اختیارات اور ذمہ داریاں ہیں جو منتخب وزیراعظم، وزیراعلی اور وزرا کے پاس ہوتی ہیں۔ نگران وزیراعظم اور صوبائی وزرائے اعلی کو بیوروکریسی میں اہم عہدوں پر اپنی پسند کے افراد کی تعیناتی کا مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔کئی بار یہ اختیار کسی ایک سیاسی جماعت کے لئے شکایت کا موقع پیدا کر دیتا ہے۔نگراں حکومت ایک عارضی حکومت ہے جو کسی ملک میں اس وقت تک کچھ سرکاری فرائض اور کام انجام دیتی ہے جب تک کہ ایک باقاعدہ منتخب حکومت قائم نہیں ہو جاتی ۔نمائندہ جمہوریتوں میں نگران حکومتیں عام طور پر اپنے دائرہ کار میں محدود ہوتی ہیں، جو حقیقی معنوں میں حکومت کرنے اور نئی قانون سازی کی تجویز دینے کے بجائے صرف روز مرہ کے امورنمٹانیکے لیے کام کرتی ہیں۔ نگران حکومت کے پاس قانون سازی،منتخب حکومت کے فیصلے واپس لینے اور پالیسی کی سطح پر تبدیلیوں کا اختیار نہیں ہوتا۔ نگراں حکومتیں اس وقت قائم کی جا سکتی ہیں جب پارلیمانی نظام میں حکومت عدم اعتماد کی تحریک میں شکست کھا جائے یا اس صورت میں جب اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے ،آئندہ انتخابات تک عبوری مدت کے لیے نگران حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔ نگران حکومت صرف ان ممالک میں متعارف ہے جہاں ویسٹ منسٹر نظام حکومت رائج ہے۔ نگران حکومت صرف انتخابات کے انعقاد کے مقصد کے لیے کام کرتی ہے۔ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد نئی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ ایسے نظاموں میں جہاں مخلوط حکومتیں اکثر ہوتی ہیں نگراں حکومت عارضی طور پر قائم کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں ہمیشہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف آمنے سامنے رہی ہیں ،یہاں مخلوط حکومت کی بجائے اتحادی حکومت ہوتی ہے۔ کوئی واضح فاتح نہ ہو یا اگر ایک مخلوط حکومت گر جاتی ہے اور ایک نئی حکومت پر بات چیت کی ضرورت پڑتی ہے تو نگران حکومتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ روزمرہ کے مسائل کو متعین مدت تک سنبھالیں گی ۔ لیکن ان سے یہ توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ کوئی حکومتی پلیٹ فارم تیار کریں یا متنازعہ بل متعارف کرائیں۔حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں وزیر اعظم کو ایسے نام دینے کا ارادہ ظاہر کر رہی ہیں جو نگران حکومت میں رکن کابینہ کے طور پر فرائض انجام دے سکیں۔ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن اس بار حالات میں ایک الجھاو گھسا بیٹھا ہے جسے سلجھائے بنا آگے نہیں بڑھا جا سکتا ۔یہ الجھاو تقاضا کر رہا ہے کہ مشاورت کے عمل میں ایسے افراد کے ناموں پر غور کیا جائے جو ملک میں دھاندلی سے پاک انتخابات کرانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔اتحادی جماعتیں جس طرح اراکین کابینہ کے ناموں کی لسٹیں تھامے پھر رہی ہیں اس سے نگران کابینہ کا غیر جانبدار رہنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔حکومت میں شامل بڑی جماعتیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ایسی نگران حکومت لانے پر مصر رہی ہیں جو انہیں اگلے انتخابات جتوا کر دے سکیں ۔یہ سوچ جمہوری تصور کے خلاف اور نظام کی جڑوں میں بارود بچھانے کے مترادف ہے۔ نگران حکومت کا تصور اگرچہ آئین پاکستان میں دیا گیا ہے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے کبھی خود کو اس درجہ بالغ نظر ثابت نہیں کیا کہ وہ بھارت کی طرح نگران سیٹ اپ کے بغیر انتخابات کرانے کی طرف پیشقدمی کر سکیں۔بھارت میں جو حکومت ہوتی ہے وہی اگلے انتخابات کا انتظام کرتی ہے۔پاکستان سے سات گنا بڑے ملک میں پچھلے چھہتر برس سے انتخابات اسی طرح ہو رہے ہیں اور سب ان انتخابات کے نتائج تسلیم کرتے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ آخر پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور نظام نگران حکومتوں کا بوجھ کیوں اٹھائے ہوئے ہے جبکہ نگران حکومتوں کے تحت ہونے والے انتخابات ہر بار متنازع ہو جاتے ہیں۔پی ڈی ایم حکومت پر الزام ہے کہ اس نے اپنے رہنماوں کو زیر سماعت مقدمات سے جس طرح بچایا ہے ، جس طرح آئینی تقاضے کو نظر انداز کر کے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کرانے میں رکاوٹیں پیدا کیں اور جس طرح سیاسی مخالفین کو دبانے کی کوشش کی اسے دیکھتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی نا قابل اعتبار قرار پا جائے گا۔ نگران حکومت کا چہرہ غیر جانبدار اور واضح ٹائم ٹیبل والا ہونا چاہئے ، پی ڈی ایم کا تسلسل نہیں ہونا چاہئے۔یہ تاثر بھی رفع کرنے کی ضرورت ہے کہ نگران حکومت لمبے عرصے تک آ رہی ہے۔عوامی حلقے انتشار کی کیفیت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔وہ ایسی جمہوریت کے منتظر ہیں جہاں شفاف انتخابات ہوں ، حکمران اور جمہوری نظام کی ساکھ اچھی ہو۔
٭٭٭