اک نیا دور جنم لیتا ہے،ایک تہذیب فنا ہوتی ہے !!!

0
69

قوموں کے عروج و زوال کی داستان، شایداتنی ہی پرانی ہوگی جتنی یہ فانی دنیا، اللہ رب العالمین نے کرہ ارض پر حضرتِ انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیج تو دیا لیکن ساتھ ساتھ الہامی ہدایات کے ذریعے، اس کی رہنمائی بھی جاری رکھی تاکہ وہ اتنا نہ بھٹکے کہ انصاف کا دامن چھوڑ کر انسانیت کی بنیادی اقدار ہی تباہ کر بیٹھے۔ مشیتِ ایزدی کے مطابق حق و باطل کی کشمکش تو ازل سے جاری ہی ہے۔ اسی رزمِ حق و باطل کی بدولت ہر کچھ عرصے بعد عروج کی آخری حدوں کو چھونے والی بظاہر بڑی بااثر قومیں زوال کی پاتالوں میں چلی جاتی ہیں اور ان کی جگہ کوئی کمزور قوم، ایک نیا دور شروع کردیتی ہے۔ ناصر کاظمی نے اپنے مخصوص انداز میں، اسی قسم کی تبدیلی کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے۔
حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
بوئے گل گل سے جدا ہوتی ہے
اک نیا دور جنم لیتا ہے
ایک تہذیب فنا ہوتی ہے
یہ ہفتہ پیپلز ریپبلک آف چائنا(ملکِ چین)کے اندر ہونے والی ان تقریبات کا گواہ ہے کہ جو یقینا اس کائنات میں، ایک نئے دور کے آغاز کی غمازی کر رہی ہیں۔ میں آزاد ہونے والے اس ملکِ چین کی تہذیب اور تاریخ تو انتہای قدیم ہے لیکن ماڈرن چائنا کا دور سے ہی شروع ہوا۔ اب تقریبا ایک صدی کے بعد مغرب، چین اور اُمتِ مسلمہ کے حالات کافی واضح ہیں لیکن ساقی نامہ پڑھتے ہوئے علامہ اقبال کی دور بینی دیکھئے تو بے انتہا حیرت ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں،
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
انہوں نے مغرب، چین اور امتِ مسلمہ کا ایک خاص ترتیب سے ذکر کیا ہے۔ شاید ان کی پیشگوئی کی یہی ترتیب ہی درست ثابت ہوگی۔ بہرحال شاہین بھٹی کو بھی نئے دور کی تلاش ہے۔
منتظر بزم ہے کب سے کہ نیا دور چلے
وقت کی گرد میں مستور مگر ساقی ہے
دنیا میں کوئی ورلڈ آرڈر بھی کبھی تضادات سے مبرا نہیں رہا۔ خلفائے راشدین کے بعد اُمتِ مسلمہ کے دور اقتدار میں خانہ جنگیوں نے ہر طرف تباہی مچائے رکھی۔ واقعہ کربلا کے اثرات تو آج بھی اُمت کے اتحاد کیلئے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ دورِ سرمایہ داری کے دُہرے معیار، فلسطین اور دیگر بہت سی ریاستوں کیلئے انتہائی ناانصافی کی فضا پیدا کئے ہوئے ہیں۔ چین کے صدر کے ارد گرد جمع شدہ عالمی رہنماں کا مجموعہ بھی مستقبلِ قریب کے کھلے تضاد کی نشاندہی کر رہا ہے۔ روس، بھارت اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا، برما اور پاکستان سے آئے ہوئے ڈکٹیٹرز کا موجود ہونا، چین کے اس نئے دور سے ہمیں خوف زدہ کردیتا ہے۔ اس نئے دور میں یقینا شخصی آزادیوں کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ اسی طرح چین کے اندر رہنے والی ایغور مسلمانوں کی اقلیت کے ناگفتہ بہ حالات بھی تشویش کا باعث بنتے ہیں۔ حیرت فرخ آبادی کے بقول،
ہر نیا دور نئے لے کے چراغ آیا کیا
اک اندھیرا سا مگر زیست پہ چھاتا ہی رہا
پاکستان کے حکومتیں ہمیشہ چین کے ساتھ اپنی دوستی کا چرچا تو ضرور کرتی ہیں لیکن تہذیبی اعتبار سے دونوں ممالک کے فاصلے کبھی کم نہیں ہوئے۔ اسی طرح پاکستان ہمیشہ امریکہ کے ورلڈ آرڈر کے زیرِ اثر ہی رہا ہے۔ جماعتِ اسلامی کے سابق امیر، محترم قاضی حسین احمد (مرحوم) چین کے ساتھ دوستی کے بڑے داعی تھے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے جب مغرب کو Absolutely Not کہنے کے بعد چین و روس کی جانب ذرا زیادہ تیزی سے قدم بڑھائے تو مقتدرہ نے آئین پر اتنا دبا ڈالا کہ وزیرِ اعظم صاحب اپنی حکومت سمیت، عین آئینی طور پر معزول ہو گئے۔ اسی دبا کا شاخسانہ یہ بھی ہے کہ اب بے چارہ آئین خود بھی معزول ہو چکا ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان کی عدلیہ کی بچی کھچی عزت و غیرت بھی بہا کے لے گیا ہے۔ دیکھیں اب چین کی قیادت میں ظہور پذیر ہونے والے اس نئے دور میں برما، پاکستان اور شمالی کوریا کے آمروں کا کیا بنتا ہے۔ ان اشعار میں، سید فضل متین بھی میری طرح خوفزدہ لگ رہے ہیں۔
آبادیوں میں کھو گیا صحراں کا جنون
شہروں کا جمگھٹوں میں گیا گاں کا سکون
تہذیب نو کی روشنی میں جل بجھے تمام
ماضی کی یادگار مرے علم اور فنون
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here