پاکستان میں مکس اچار بننے والی حکومت سے کیا توقعات کی جا سکتی ہیں، کیا یہ لوگ معیشت کو سہارا دے سکیں گے؟
کیا ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کے آگے کوئی دیوار کھڑی کر سکیں گے؟ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتری کی جانب لے کر جا سکیں گے؟
عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو بحال کر سکیں گے؟ پاکستان میں سرمایہ کاری لا سکیں گے؟ غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کے واقعات کم کرسکیں گے؟ کیا پانچ سال حکومت کرنے کے بعد اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی کارکردگی پر شرمندہ ہو سکیں گے؟ آج فوجی جرنیلوں کے پہلو میں بیٹھ کر حکومت چلانے کو اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کسی ہچکچاہٹ کا اظہار کر سکیں گے؟ آزادی صحافت کے نعرے لگاتے لگاتے صحافت کا گلا گھونٹنے میں کسی رحم دلی کا اظہار کر سکیں گے؟ گیس اور بجلی کے بل دیکھ کر عوام کے درد کو سمجھ سکیں گے؟ کم عمر بچوں کو سکولوں کی بجائے کاموں پر بھجوانے والے والدین کی مجبوریوں کو سمجھ پائیں گے؟ کیا ہم جیسے دیوانوں کو ان سے کبھی اپنے سوالات کے جوابات مل پائیں گے؟ میرے نزدیک تو اس کا سیدھا سا جواب” نہیں” ہی ہے، گزشتہ 10 سالوں سے پاکستان میں انتخابات کے نام پر جو ڈھونک رچا کر حکومتیں معرض وجود میں لائی جا رہی ہیں، ان کے نزدیک کارکردگی اب عوامی خدمت کا نام نہیں بلکہ فوجی جرنیلوں کی اس رضامندی کا ہے جو انہیں ایوان اقتدار تک پہنچاتی ہے، یہی وہ سوچ ہے جو اب پاکستان کے سیاست دانوں کے دماغوں میں پختہ ہو چکی ہے اور تمام سیاست دان غیر ارادی طور پر خود کو جی ایچ کیو کا سیاسی ونگ سمجھنے لگے ہیں، قسم سے اب تو مجھے عمران سیریز بھی کسی حد تک پاکستان میں چلنے والے سیاسی ڈراموں سے کم تر محسوس ہونے لگی ہے، جہاں منطقی اور قانونی طور پر کوئی کام نہیں ہو رہا بلکہ اپنی اپنی پسند کی منطق اور قانون اپنائے جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان کو شاید کسی نے ”بددعا” دے دی ہے اور اس کی” بددعا” قبول بھی ہو چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اب نہ جینے کا مزہ ہے نہ ہی مرنے کا۔ اوپر اٹھائے گئے تمام سوالات وہی ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان میں انتخابات میں سیاسی جماعتیں حصہ لیتی ہیں مگر انتخابات سے نکلتے ہی ان وعدوں اور نعروں سے بھی یوں نکل جاتے ہیں جیسے ان کے نزدیک عوام سے کی جانے والی زبان اور وعدے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ اس منافقت کو پاکستان میں سیاست کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ مہذب سیاست میں سیاسی رہنما انتہائی مدبر اور دور اندیشی کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ یہ قوم کے لیے ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کے مثبت نتائج سے قومیں ایک لمبی مدت تک مستفید ہوتی ہیں مگر ہمیں تو جانے کس کی بددعا لگ چکی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
٭٭٭