”ریاست سانجھی”

0
16

”ریاست سانجھی”

نومنتخب حکومت شہباز شریف اور آصف زرداری کی قیادت میں ملک کو ترقی پر گامزن کرنے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے لیکن تمام پاکستانی اس حقیقت سے باخوبی آگاہ ہیں کہ اس وقت جو ملک کو مسائل درپیش ہیں ، ان کا حل نومنتخب حکومت کے پاس بظاہر نظر نہیں آتا ہے ،لیکن مفاہمتی سیاست کی نوید ضرور دیکھنے کو ملی ہے جب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم ہائوس میں شہباز شریف سے ملاقات کی تو ”ریاست سانجھی ”کا نعرہ بلند ہوا،اب دیکھنا ہوگا کہ ”ریاست سانجھی” کے نام پر ہمیں حکومت کتنی کامیاب دکھائی دیتی ہے۔سوال یہ ہے ریاست اگر سانجھی ہے تو سیاست اْس کے دائرے ہی میں رہ کر کی جا سکتی ہے۔ریاست کا دائرہ کیا ہوتا ہے، اْس کا آئین اور عوام،اگر ان دونوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو ریاست مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔یہ تو سوال ہے ہی نہیں کہ سیاست دانوں یا سیاسی جماعتوں نے ریاست کو سانجھا نہیں سمجھا ہوا۔وہ اس بنیادی نکتے پر تو متفق ہیں کہ ریاست ہم سب کی ہے اسی لئے اپنا اپنا حصہ لینے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔اصل مسئلہ سیاست کے ساتھ ہے۔اپنی اپنی سیاست کے اصول کو اگر مان لیا جائے تو وہی انتشار پھیلتا ہے جس کا ہم اِس وقت شکار ہیں۔سیاسی جماعتوں کے منشور علیحدہ علیحدہ ہو سکتے ہیں،مگر یہ نہیں ہو سکتا وہ سیاست کے بنیادی اصولوں کو ہی پامال کر دیں،دنیا بھر میں جہاں جمہوریت ہے وہاں سیاست بھی ہے،سیاست بے لگام نہیں ہوتی،اصولوں کے تابع ہوتی ہے۔اِس میں اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ملک کے آئین کو تسلیم کرنا ہے،اْس کے اندر رہ کر سیاست کرنی ہے۔ماحول کو بیان بازی سے گدلا نہیں کرنا کہ ایک دوسرے کی شکلیں ہی پہچانی نہ جائیں۔ہماری اسمبلیوں میں جو کچھ ہوتا ہے، کیا اْسے بھی اپنی اپنی سیاست کا لبادہ اوڑھا کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے، گالم گلوچ، دھکم پیل حتیٰ کہ مار دھاڑ کس سیاسی زمرے میں آتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک گمراہ کن نعرہ ہے کہ سیاست اپنی اپنی ہو سکتی۔ پروگرام اور منشور اپنا اپنا ہو سکتا ہے، سیاست بھی ایک سانجھی چیز ہے، جس میں بہت سی مشترکہ باتوں کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔یہ ایک اچھی پیشرفت ہوئی ہے، جس میں وفاق کی ایک اکائی کو تنہائی سے نکالا گیا ہے۔کہا یہی جا رہا تھا کہ خیبرپختونخوا اور وفاقی حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ تک قائم نہیں ہو سکے گی،کیونکہ تناؤ بہت زیادہ ہے۔علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم اور صدرِ مملکت کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی تھی۔وزیراعظم پشاور کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے اْن کا استقبال بھی نہیں کیا تھا۔ ماضی بعید میں بھی ایسے واقعات پنجاب میں ہوئے تھے اور اْن کی تلخ یادیں ایک عرصے تک پیچھا کرتی رہی تھیں۔یہ چیزیں سیاست کے زمرے میں نہیں آتیں،بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی کہی جا سکتی ہیں اس لئے اچھا ہوا یہ برف پگھلی اور ریاست کے معاملات آگے بڑھے۔ اِس وقت ملک میں ایک واضح تقسیم موجود ہے اس تقسیم کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سیاست چونکہ اپنی اپنی ہے اس لئے سیاسی انتشار اور تقسیم میں کوئی حرج نہیں۔کیا اس انداز سے معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے؟طاقت اور وہ بھی ریاستی طاقت کے زور پر آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں،مگر اسے دنیا کے مہذب ممالک میں کوئی اچھا راستہ قرار نہیں دیا جاتا،نہ ہی علم سیاست میں اس کی کوئی اچھی تعبیر ملتی ہے۔سیاست افہام و تفہیم کا نام ہے۔ ریاست اگر سانجھی ہے تو پھر یہ نہیں ہو سکتا جو اقتدار میں ہوں وہ اپنی من مانی کریں۔اپوزیشن کا بھی ریاست چلانے میں اتنا ہی کردار ہے، جتنا کہ حزبِ اقتدار کا۔ دونوں کو ایک ہی گاڑی کے پہیے کہا گیا ہے اِس لئے تقسیم کی بجائے اتفاق پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے! ابھی تک اِس حوالے سے قدم نہیں اٹھایا گیا۔واضح طور پر نظر آ رہا ہے ایک سیاسی جماعت کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اسمبلیوں کے اندر بھی ایک تناؤ کی فضاء ہے۔قومی اسمبلی میں حالت یہ ہو گئی ہے کہ حکومت کوئی قرارداد منظور کرانے کے لئے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی پر دروازے بند کر دیتی ہے۔ایسی باتیں تو پہلے کبھی دیکھی نہ سنیں، کیا انہیں بھی اپنی اپنی سیاست کے نظریے میں شمار کیا جا سکتا ہے؟ اگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد برف تھوڑا پگھلی ہے تو اب مزید آگے بڑھنا چاہئے،بند دروازے کھولنے چاہئیں اور واقعتا عملی اقدامات سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ریاست سب کی سانجھی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here