راولپنڈی (پاکستان نیوز) بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے ہیں ، عمران خان نے اڈیالہ جیل میں بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور کے ساتھ ملاقات میں تمام مطالبات تسلیم کیے جانے تک احتجاج کی کال واپس لینے سے انکار کر دیا ہے ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے موقف میں کوئی نرمی نہیں برتی جا رہی ہے جیسے ہی عمران خان کیخلاف توشہ خانہ کیس میں ضمانت کی خبر سامنے آئی تو چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف راولپنڈی میں ایک اور مقدمہ کا اندرا ج کر دیا گیاجس میں پی ٹی آئی میں خوشی کی لہر فرضی ثابت ہوئی، اس کے بعد سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے اپنے خطاب کے دوران پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر خوب تنقید کے نشتر برسائے جس سے صاف ظاہر ہے کہ فضا میں اب بھی خنکی ہے اور معاملات کسی طور پر حل کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں ، حکومت نے احتجاج کو روکنے کیلئے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں پرکنٹینرز لگا دیئے جبکہ2ماہ کیلئے دفعہ 144نافذ کر دی گئی ہے ، دوسری طرف وزیر داخلہ محسن نقوی نے مظاہرین کو خبردار کیا ہے کہ جو بھی پولیس کے ہتھے چڑھا اس کا شناختی کارڈ، پاسپورٹ فوری طور پر بلاک کر دیا جائے گاجبکہ طلبا کی تمام تعلیمی اسناد کو منسوخ کر دیا جائے گا، دریں اثنا عمران خان کی بہنیں اور اہلیہ بھی احتجاج کی تیاری میں پوری طرح متحر ک ہیں ، کارکنوں اور رہنمائوں کو پارٹی گائیڈ لائنز جاری کر دی گئی ہیں جبکہ بشریٰ بی بی پارٹی کو متحد کرنے اور رہنمائوں میں اختلافات ختم کرنے میں کردار ادا کر رہی ہیں ۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک بار پھر ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کی جانب 24 نومبر کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ سیاسی حلقوں میں اس بار کے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے اعلان کو ماضی کے احتجاج سے اس لیے بھی زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے کہ کیونکہ اس بار نہ صرف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی جیل سے باہر ہیں بلکہ سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی نظر آ رہی ہیں۔پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ 24 نومبر کو اسلام آباد لانگ مارچ میں اپنے مطالبات پورے ہونے تک واپس نہیں جائیں گے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت کے چار مطالبات ہیں جن میں 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، جمہوریت اور آئین کی ‘بحالی’، ‘چوری شدہ مینڈیٹ’ کی واپسی اور تمام ‘معصوم’ سیاسی قیدیوں کی رہائی۔پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رْکن قومی اسمبلی شیر علی ارباب کہتے ہیں کہ پچھلے احتجاجی مظاہروں کا مقصد کارکنان کو متحرک کرنا، ان میں آگاہی پیدا کرنا اور حکومتی ردِ عمل کو جانچنا تھا۔24 نومبر کے لانگ مارچ کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج (لانگ مارچ) طویل المدتی ہوگا، زیادہ منظم ہوگا اور اس میں لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوں گے۔سیاسی حلقوں میں ایسی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان شاید کوئی پسِ پردہ مذاکرات چل رہے ہیں۔حکومتی وزرا نے ان خبروں پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رْکن قومی اسمبلی شیر علی ارباب نے بتایا کہ انھیں حکومت یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہونے والے کسی بھی مذاکرات کا علم نہیں ہے تاہم عمران خان کی بہن علیمہ خان نے تصدیق کی ہے کہ بیرسٹر گوہر اور وزیرِ اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اسٹیبشلمنٹ سے مذاکرات شروع کرنے کی اجازت مانگی ہے۔ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ‘بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور نے ان (عمران خان) سے اجازت مانگی ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی شروعات کریں۔ عمران خان نے اجازت دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھتی ہیں۔