حکومت چھٹی پر، مگر ٹھہرئیے !!!

0
25

کل اہلیہ محترمہ نے دو تین ماہ کیلئے پاکستان جانا تھا، انہیں JFK ایئرپورٹ پر رخصت کرنے کے بعد رات گئے جب اپنے گھر نیو جرسی پہنچے تو وہی پرانی لاپرواہ بیچلرزندگی والی کیفیت نے لوٹنا چاہا۔ چھوٹی چھوٹی پابندیوں کے بغیر والی زندگی، جب سونے جاگنے کے اوقات کا کوئی تعین نہیں ہوتا تھا، کھانے کے بعد برتن وہیں پڑے رہتے تھے جہاں کھانا کھایا گیا تھا، ٹی وی اونچی آواز سے دن رات چلتا رہتا تھا اور سارے گھر میں جو لائیٹ آن ہوتی تھی پھر اس کا آف ہونا مشکل ہو جاتا تھا۔بیگمات کے میکے جانے کے واقعات ہمارے نیو جرسی میں رہنے والے قریبی احباب کے حلقے کے باقی ساتھیوں کے گھروں میں بھی باقاعدگی سے ہوتے رہتے تھے۔ ائیرپورٹ پر تو سب مس یو، مس یو کہہ کر آجاتے تھے لیکن گھر پہنچنے کے فورا بعد اعلان ہوتا تھا کہ حکومت چھٹی پر چلی گئی ہے، بس پھر کچھ ہفتے آزادی کا جشن اس چھٹی والے گھر میں جاری رہتا تھا۔ ڈسپلن کے بغیر والی زندگی کے بھی کیا مزے ہوتے تھے۔ گیراج، پزا (Pizza) کے ڈبوں سے بھر جاتا تھا۔ دوسری طرف لانڈری ہونے والے کپڑوں کا انبار لگ جاتا تھا۔ پھر جب چھٹی کا آخری دن آجاتا تھا تو صفائی کا عالمی دن ہی منانا پڑتا تھا۔ حکومت کے آنے سے پہلے پہلے ورلڈ آرڈر کو بالکل درست کرنا ضروری ہوتا تھا، ورنہ اس کے بعد والا جملہ ہر کوئی حصہ بقدرِ جثہ سب سے خفیہ ہی رکھتا تھا۔خیر، ائیرپورٹ سے واپس آکر جب میں اپنے بیڈ پر لیٹ کر اپنی آزادی کا دوستوں کے واٹس اپ گروپ میں اعلان کرنے والا ہی تھا کہ اچانک کچن سے ایک نسوانی آواز آئی ۔ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا پھر ذرا غور سے سنا تو پتہ چلا کہ ہماری بہو اپنے دیور سے مخصوص تحکمانہ لہجے میں فرمارہی تھیں کہ بلال، ساری لائیٹیں آف کر کے سونا ۔ بالکل وہی لہجہ جو ایک حکومتِ وقت کی بااختیار خاتونِ خانہ کا اپنے گھر میں ہونا چاہئے، تاکہ ڈسپلن قائم و دائم رہے۔ دراصل ہم اس حقیقت کو بھلا چکے تھے کہ دانیال کی شادی کے بعد، بیگم صاحبہ پہلی مرتبہ پاکستان گئی ہیں اور وہ ان دو سالوں میں اپنا جانشین بھی تیار کرچکی ہیں۔ بہو رانی نے یہ تھوڑی سی اونچی آواز میں ہدایت صرف بلال کیلئے جاری نہیں کی تھی بلکہ وہ اپنے شوہر دانیال اور مجھے بھی یہی پیغام دے رہی تھیں کہ حکومت چھٹی پر ضرور گئی ہے مگر قائم مقام بھی کچھ کم طاقت ور مقرر نہیں ہوئے۔میرا مولانا محمد یوسف اصلاحی کے ساتھ بہت زیادہ سفر رہتا تھا تو ایک مرتبہ انہوں نے پوچھا کہ فرخ، باقی لوگوں کی گاڑیوں میں راستے کی ہداہت دینے کیلئے نسوانی آواز آتی ہے جب کہ تمہاری گاڑی میں مردانہ آواز میں دائیں بائیں مڑنے کی ہدایات سنائی دیتی ہیں۔ میں نے جوابا عرض کیا کہ مولانا، سارا دن گھر میں خاتونِ خانہ سے لیفٹ رائیٹ کے حکم سننے کے بعد دل کرتا ہے کہ گاڑی میں کسی مردانہ آواز کا حکم مانیں۔ مولانا محترم خوب محظوظ ہوئے۔ انہی دنوں میری اہلیہ پاکستان گئیں اور اپنی امی کی خرابیِ صحت کی وجہ سے ان کی خدمت میں لگ گئیں۔ شاید تین چار ماہ گزر گئے۔ ایک دن مولانا محترم میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھے تو دیکھا کہ راستے کی ہدایات ایک نسوانی آواز میں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ انہوں نے حیران ہو کر میری طرف کچھ اس انداز سے دیکھا کہ میں سمجھ گیا کہ مولانا محترم کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں۔ بہرحال تھوڑی سی دھیمی آواز میں جب میں نے انہیں بتایا کہ کافی عرصے سے بیگم صاحبہ سے احکامات نہیں سنے تو اب دل کرتا ہے کہ گاڑی والی کی لیفٹ رائیٹ ہی سن لیں۔ بس پھر کیا تھا، مولانا محترم خوب ہنسے اور دعا بھی کی۔
اب چند ہفتے تک، اہلیہ محترمہ تو یہاں نہیں ہونگی لیکن ہمارا گھر انہی کی بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے مطابق چلتا رہے گا۔ پہلے میرا پروگرام تھا کہ ایک ماہ بعد پاکستان جاں، اب شاید ود ہفتے میں ہی چلا جاں گا۔ مرضی کی آزادی نہ ہو تو پھر یہاں کیا اور وہاں کیا؟
اقبال نے بھی کیا خوب کہا ہے:
متاعِ بیبہا ہے درد و سوزِ آرزومندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی
حجاب اِکسیر ہے آوار کوئے محبت کو
مِری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاںبندی
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سِکھائے کس نے اسمعیل کو آدابِ فرزندی
زیارتگاہِ اہلِ عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی
مِری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حِنابندی
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here