پاکستان نے افغان طالبان کو باضابطہ مذاکرات کی دعوت دینے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے جس کا مقصد امریکا اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت کو کسی حتمی نتیجے تک لے کر جانا تاکہ 18سال سے جاری افغان کشیدگی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ اس تناظر میں پاکستان باقاعدہ طورپر دعوت نامے طالبان نائب کمانڈر عبدالغنی برادر اور شیر عباس ستنگزئی کو دوحہ بھجوائے گا کیونکہ طالبان کے یہی دو رہنما امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔طالبان نائب کمانڈر عبدالغنی برادر کئی سال تک پاکستان کی حراست میں رہے اور انہیں گزشتہ برس امریکا اور افغان حکومت کے کہنے پر رہا کیا گیا تھا۔ عبدالغنی برادر کی رہائی کے بعد سے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی جو اب ممکنہ طور پر ایک اہم معاہدے کی طرف جا رہی ہے۔ تاہم طالبان کو باقاعدہ دعوت دینے سے قبل پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ افغان حکومت بالخصوص صدر اشرف غنی کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا جائے گاکیونکہ افغان حکومت نے اس معاملے پر طالبان کے ساتھ پاکستان کے براہ راست مذاکرات پر تنقید کی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کو مذاکرات ملتو ی کرنا پڑے تھے۔رواں برس فروری میں افغان طالبان کا وفد وزیراعظم عمران کی دعوت پر پاکستان آنے والا تھا لیکن عین موقع پر طالبان کے دورے کو افغان صدر کے بیان کے بعد ملتوی کرنا پڑا تھا۔ پاکستان نے امید کا اظہار کیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ اسلام آباد کے بعد افغانستان طالبان کی پاکستان آمد اور مذاکرات پر اعتراض نہیں اٹھائے گا۔ مزید برآں پاکستان کو طالبان کی ساتھ بات چیت کو امریکی تائید بھی حاصل ہے اور امریکا مسئلے کے حل کے لیے پاکستان سے ٹھوس اقدامات کا متمنی ہے۔ افغان طالبان پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر پاکستان نے مذاکرات کی دعوت دی تو طالبان کا وفد ضرور بات چیت کے لیے پاکستان جائے گا۔واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی باقاعدہ دعوت کا عمل وزیر اعظم عمران کے دورہ امریکا کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونیوالی بات چیت کے سلسلے کی کڑی ہے جہاں امریکا نے پاکستان سے ممکنہ طور پر افغان تصفیے میں مدد مانگی تھی اور وزیراعظم نے بھی ممکنہ مددکا بھرپور یقین دلایا تھا۔افغان طالبان اور امریکا کے مابین دوحہ میں جاری مذاکرات کے کئی دور مکمل ہو چکے ہیں جس میں کئی اہم معاملات پر بات چیت تقریباً حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے تاہم طالبان افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلااور امریکا، افغانستان سے دہشتگردی کی مکمل روک تھام کی ضمانت چاہتا ہے۔ ان دونوں نکات پر مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔گزشتہ روز افغان حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ بہت جلد طالبان کے ساتھ یورپ کے کسی ملک میں براہ راست بات چیت کرنے والے ہیں لیکن افغان طالبان نے فی الحال افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ صرف اس وقت بات چیت کریں گے جب ان کے امریکا کے ساتھ مذاکرات حتمی شکل اختیارکر جائیں گے۔ امریکہ اور طالبان غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور افغان سرزمین کو کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے دینے کے بارے میں جلد معاہدہ کر لیں گے۔ ایک مرتبہ ایسا معاہدہ طے پاگیا تو پھر طالبان اس کے بعد افغان حکومت اور دیگر دھڑوں کے ساتھ ایک وسیع تر قومی حکومت کے قیام کے لیے بات چیت پر تیار ہو جائیں گے۔طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی کہاہے کہ طالبان پاکستان کی دعوت پرمذاکرات کے لیے اسلام آبادضرور جائیں گے لیکن انہوں نے افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد ہی انٹرا افغان مذاکرات کا آغازہوگا، اس سلسلے میں امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے بھی کہاہے کہ جب طالبان امریکہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں گے توانٹرا افغان مذاکرات کا ایک اور دور ہوگا، اس میں طالبان اور سینئر حکومتی عہدیداروں، اہم سیاسی جماعتوں کے نمائندوں، سول سوسائٹی اور خواتین پر مشتمل قومی مذاکراتی ٹیم شامل ہوگی۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ قبل ازیں پاکستان کو افغانستان کے حالات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا اور پاکستان پر انگلیاں اٹھتی تھیں۔ عمران خان مسلسل کہتے تھے افغان امن کیلئے سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ آج امریکہ ، روس ، چین، یورپی اور مسلم امہ نے پاکستان کے موقف کی تائید کی۔ اور عالمی دنیا تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان و دیگر مسائل کا حل مذاکرات میں ہے۔ آج چین ‘ روس اور امت مسلمہ کے لوگ افغانستان میں امن کے لیے اکٹھے ہیں۔ کچھ طاقتیں پاکستان اور افغانستان میں امن نہیں چاہتیں۔ ان طاقتوں کو جلد بے نقاب کریں گے۔ طالبان مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ طالبان سے مذاکرات پر اشرف غنی کے تحفظات تھے۔ پاکستان نے افغان صدر کے تحفظات دور کر دیئے ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اور انشاءاللہ ہماری ثالثی کی بدولت افغانستان میں امن پیدا ہوگا۔ ہم افغانستان میںامن چاہتے ہیں۔ تاہم،ابھی تک افغانستان کے اندرامن قائم نہیں ہو سکا۔اگرچہ صدارتی انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں لیکن ہفتہ کے روزافغان نائب صدارتی امیدوار امرللہ صالح کے دفتر کے باہر دھماکا، ہوا ۔ اس واقعہ نے امن کی امیدوں کو ایک دفعہ پھر دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ افغان انتظامیہ اپنے ملک کو تو کیا اپنے دفاتر بھی طالبان حملوںسے محفوظ رکھنے میں ناکام ہو رہی ہے۔اسی دوران میں صدرٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان اورآرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ کے دورہ امریکہ کے فوراً بعداپنے چیئرمین چیف آف جنرل سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ اور مذاکرات کار زلمے خلیلزاد کواشرف غنی انتظامیہ کواعتمادمیں لینے کی خاطر کابل بھیجا اور ان کے اس بیان کہ وہ افغانستان کودس دن کے اندرتباہ کرسکتے ہیں،سے جو ردعمل پیدا ہوا،اس کی وضاحت یا غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی۔افغان مذاکرات کاعمل اگرچہ اس وقت جاری ہے اور دوحا میں بھی امریکہ اور طالبان نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور شروع ہو رہا ہے،لیکن مندرجہ بالا خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی متفق الیہ سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے ایک پےچیدہ عمل میں سے گزرنا پڑے گا۔افغان تنازع کے تناظر میں اس وقت چار فریق ابھر کر سامنے آئے ہیں؛ (۱)طالبان۔ (۲)افغان انتظامیہ۔ (۳)امریکہ۔ (۴)پاکستان۔ حقیقی اور آخری سمجھوتا ان کے درمیان ہوگالیکن وہ کیسے وقوع پذیر ہوگا، اس کے لیے چاروں فریقین کو نہایت درجہ سمجھداری،دوراندیشی اور معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بہترین سفارتکاری سے کام لینا ہوگا۔امریکہ کو اپنی افواج جلد ازجلد واپس بلا لینی چاہئیں،ان کا نظام الاوقات دے دینا چاہیے او راس کے بعدطالبان کو جنگ بندی پر آمادہ ہو جانا چاہیے۔
٭٭٭