ایکٹ فار امریکا ایک قومی سطح کی سیاسی تنظیم ہے جو اپنے آپ کو ملک کی سب سے بڑی گراس روٹ نیشنل سکیورٹی آرگنائزیشن قرار دیتی ہے۔ آرگنائزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کے ارکان کی تعداد 75 ہزار ہے اور ارکان کی تعداد اتنی زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ ملک کی سب سے بڑی مسلم مخالف تنظیم ہے۔ اس تنظیم کا قیام نائن الیون کے بعد امریکی کانگریس فار ٹرتھ کے نام سے عمل میں آیا تھا۔ اس تنظیم نے مسلم مخالف قوانین کی منظوری کے لئے سیاسی سطح پر بھرپور لابنگ کی ہے ، اپنے آپ کو دائیں بازو کے سیاستدانوں، مسلم مخالف رہنماو¿ں اور تنظیموں سے منسلک کر رکھا ہے اور یہ تنظیم موقع بے موقع مسلم مخالف احتجاجی مظاہرے کرتی رہتی ہے۔ ایکٹ فار امریکا کو بنیادی طور پر کنزرویٹیو ایوینجلیکل عیسائیوں ، اسرائیل کے حامی اور اسرائیل کادفاع کرنے والے سخت گیر حلقوں اور انتہائی دائیں بازو کے ری پبلکن رہنماو¿ں کی حمایت حاصل ہے۔ ایکٹ فار امریکا ہر سال واشنگٹن ڈی سی میں ایک نیشنل کانفرنس اینڈ لیجیس لیٹیو بریفنگ کا انعقاد کرتی ہے ۔ ماضی میں ہونے والی کانفرنسوں میں ری پبلکن پارٹی کے نمایاں قائدین شریک ہوتے اور تقریریں کرتے رہے ہیں ۔ ان میں ایک نام نمائندے پیٹر کنگ کا بھی ہے جس نے کہا تھا کہ امریکا میں مساجد کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے ۔ پیٹر کنگ ریڈیکلائزیشن آف مسلمز پر کانگریس میں ہونے والی مختلف مواقعوں پر سماعت میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں ۔2010 میں ایکٹ فار امریکا کی طرف سے پیٹر کنگ کو ” ایکٹز پیٹریاٹ ایوارڈ “ سے نوازا گیا تھا۔ ایکٹ فار امریکا کی ان کانفرنسوں میں مقررین کی حیثیت سے شریک ہونےوالوں میں سینیٹر ٹیڈ کروز اور لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) مائیک فلن بھی شامل ہیں۔ ملک میں جہاں کہیں بھی اسلام مخالف قوانین بنانے کی حمایت میں مہم چلائی گئی ، ایکٹ فار امریکا اس میں پیش پیش رہی ہے۔ 2010 میں ایکٹ فار امریکا نے 6 لاکھ روبو کالز پر 60 ہزار ڈالر خرچ کئے۔ یہ روبو کالز ملک گیر ریڈیو مہم کے سلسلے میں کی گئیں جس کا مقصد اوکلا ہوما سٹیٹ میں اسلامی قوانین کے استعمال پر پابندی کے لئے آئینی ترامیم کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا تھا۔ اوکلاہوما سٹیٹ نے یہ ترمیم منظور کر لی تھی لیکن بعد میں 10th سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے اسے غیرآئینی قرار دے دیا تھا۔ 2017 میں ایکٹ نے ” شریعت کے خلاف مارچ “ کے عنوان سے ملک کے 20 شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا۔ اس مارچ کے نیشنل کوآرڈی نیٹر سکاٹ پریسلر اور اپنے آپ کو سفید فام نسل پرست کہنے والے بلی روپر کے درمیان ای میلز اس بات کا اشارہ ہیں کہ دونوں اس مارچ میں ملوث تھے۔ پریسلر نے مبینہ طور پر روپر کو بتایا کہ اسے منظوری مل گئی ہے اور وہ مارچ کے انعقاد کے لئے تیار ہے۔ اگرچہ بعد میں ایکٹ نے روپرز کی ان کالز سے علیحدگی اختیار کر لی جس میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ مارچ میں مسلح ہو کر شرکت کریں۔ مسلم مخالف بیانیہ اور مو¿قف رکھنے کی وجہ سے ہی ایکٹ کی بانی بریگیٹ گبریل کو متعدد بار اقوام متحدہ ، پینٹاگون ، ممبرز آف یونائیٹڈ سٹیٹس کانگریس، یونائیٹڈ سٹیٹس فارن پالیسی اورنیشنل سکیورٹی سے متعلق بہت سے اداروں میں خطاب کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔ بریگیٹ وہاں جاتی ہیں اور خوب کھل کر مسلمانوں کی مخالفت میں تقریریں کرتی ہیں۔ اسے فوکس نیوز ، سی این این سمیت دیگر چینلز پر بھی مختلف پروگراموں میں مدعو کی جاتا ہے جہاں وہ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتی ہیں ۔عوامی اجتماعات، مظاہروں، انٹرویوز، ٹی وی پروگراموں ، مختلف اداروں کی تقاریب سے خطاب میں گبریل نے کھل کر مسلم مخالف تقاریر کی ہیں جن میں اسلام کے خلاف زہرافشانی کی ہے۔ 2007 میں ایک بیان میں اس نے کہا تھا کہ قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے والا مسلمان کبھی امریکا کا وفادار شہری نہیں ہو سکتا۔ 2011 میں سی این این سے بات چیت کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ بنیاد پرست مسلمان سی آئی اے ، ایف بی آئی، پینٹاگون ، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں گھس چکے ہیں۔ 2014 میں ہیٹریٹیج فاو¿نڈیش فورم میں خطاب کرتے ہوئے اس نے دعویٰ کیا تھا کہ دنیا بھر میں موجود مسلمانوں میں سے 15 سے 25فیصد مسلمان شدت پسند ہیں۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد گبرائیل کو وائٹ ہاو¿س کے اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا جہاں مارالاگو پر اس کی صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک تصویر بھی بنی، اس موقع پر اس نے نیشنل سکیورٹی پر ایک بریفنگ میں شرکت کی تھی۔
٭٭٭