”تو چل میں آیا”

0
50

”تو چل میں آیا”

زندگی میں پہلی مرتبہ امریکہ میں اپنے ہوم ٹائون کے کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست میچ دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ، پاکستانی ہونے کی غرض سے دل ہمیشہ سے قومی ٹیم کے ساتھ ہی دھڑکا ہے ، جب پاکستان نے بھارت کو انتہائی کم سکور پر بولڈ آئوٹ کیا تو ایسا محسوس ہوا کہ ہم بیٹنگ کیے بغیر ہی میچ جیت گئے ہیں، اس دوران میری بھارتی کرکٹرز سے بات چیت ہوئی تو وہ بڑے خوداعتماد محسوس ہوئے اور بولے کہ آپ کو ہماری بائولنگ کا شاید ٹھیک سے معلوم نہیں ہے، ہم اتنے کم سکور کا بھی دفاع کر سکتے ہیں ، ایک وقت مجھے حیرت ہوئی لیکن پھر جب پاکستانی بلے بازوں نے” تو چل میں آیا” کی مصداق پر آئوٹ ہونے کا سلسلہ شروع کیا تو عقل دھنگ رہ گئی، حیران کن طور پر بھارتی بائولرز کی کوئی ایک بھی گیند ایسی نہیں تھی جس پر کھلاڑی کا آئوٹ ہونا یقینی ہو، پاکستانی بلے بازوں نے خود وکٹیں گنوائیں ۔امریکہ کے شہر نیویارک میں روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کے میچ کا چرچا ورلڈ کپ کے شیڈیول کے ساتھ ہی ہونا شروع ہو گیا تھا اور دنیا بھر سے شائقین نے نو جون کو ہونے والے اس مقابلے کے لیے سٹیڈیم کو بھر دیا تھا۔اس میچ میں پاکستان کے لیے جتنی اچھی باتیں ہو سکتی تھیں سب ہوئیں، میچ سے پہلے بارش ہوئی، پاکستان نے ٹاس جیتا، انڈیا کو مقررہ 20 اوورز میں 119 رنز پر آل آؤٹ کر دیا، بابر اور رضوان کے کیچز بھی چھوٹے اور ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 13 اوورز میں پاکستان نے دو وکٹوں کے نقصان پر 71 رنز بھی بنا لیے لیکن پھر بھی گرین شرٹس یہ میچ نہیں جیت سکے۔ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے جب ایک روزہ میچ میں پاکستان کا دبدبہ تھا اور شارجہ کا گراؤنڈ پاکستانی کرکٹ کی جنت سمجھا جاتا تھا۔22 مارچ 1985 کو راتھ مینس کپ کے پہلے میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر بولنگ کی اور انڈیا کی مضبوط بیٹنگ آرڈر کو 125 رنز پر آل آوٹ کر دیا۔ محمد اظہرالدین نے 47 رنز اور کپتان کپل دیو نے 30 رنز بنائے جبکہ آٹھ کھلاڑی دوہرے ہندسے میں بھی نہ پہنچ سکے۔عمران خان نے اپنے کریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے 14 رنز کے عوض چھ وکٹیں لیں، تاہم پاکستان یہ میچ 38 رنز سے ہار گیا۔پاکستان کو آخری 8 اوورز میں صرف 48 رنز دکار تھے اور ان کی 8 وکٹیں ابھی باقی تھیں، (یعنی 48 گیندوں پر 48 رنز درکار تھے)، یہ شکست بھی ٹی20 انٹرنیشنل کی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے جو پہلی بار ہوا ہے، آئی سی سی کی کسی بھی فل ممبر ٹیم کو ایسی صورتحال میں شکست نہیں ہوئی۔اس سے پہلے یہ ریکارڈ آسٹریلیا کے پاس تھے، وہ 2020 میں انگلینڈ کے خلاف 163 رنز کے ہدف کا تعاقب کررہے تھے اور انہیں آخر میں 52 رنز درکار تھے اور ان کی 9 وکٹیں ابھی باقی تھیں۔ابتدائی 10 اوورز میں 3 وکٹ کے نقصان پر 81 رنز بنانے کے بعد آخر میں صرف 38 رنز کا اضافہ، آئی سی سی فل ممبر ٹیم کی جانب سے دوسرا کم ترین اسکور ہے، اس سے پہلے بنگلہ دیش نے 2014 کے ٹی20 ورلڈکپ میں ہانگ کانگ کے خلاف ابتدائی 10 اوورز میں 3 وکٹ پر 80 رنز بنانے کے بعد صرف 28 رنز کا اضافہ کیا تھا اور وہ 108 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی تھی۔واضح رہے کہ مسلسل دو شکستوں کے بعد پاکستان کی سپرایٹ مرحلے میں رسائی مشکل ہوگئی ہے، قومی ٹیم 11 جون کو کینیڈا اور 16 جون کو آئرلینڈ سے مدمقابل ہوگی، تاہم پاکستان کی اگلے مرحلے میں رسائی امریکا کے دونوں میچز ہارنے سے مشروط ہوگی۔پاکستانی ٹیم کی ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی کی ایک وجہ ٹیم میں گروپ بندی کو بھی قرار دیا جار ہا ہے ، ایک گروپ بابر کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا شاہین کے ساتھ اور شاہین کے ساتھ زیادہ کھلاڑی ہیں، تقسیم موجود ہے اس کے علاوہ سیلیکٹر وہاب ریاض کی پسند نا پسند پر اپنی گروپ بندی بھی ہے۔ٹیم تقسیم کا شکار ہے ان میں کھیل کا جذبہ موجود نہیں ہے، جس کی وجہ کپتانی سے شروع ہوتی ہے اور پھر اندر تک جاتی ہے۔قومی کرکٹرز کو علم ہے کہ وہ ورلڈکپ سے باہر ہونے جا رہے ہیں ، اس لیے یورپ کے ٹرپ پلان ہو گئے ہیں ، کئی کھلاڑی امریکا میں پکنک منالیں گے کچھ دبئی میں رُک جائیں گے جبکہ کچھ نے یورپ کے پلانز بنائے ہوئے ہیں وہ انجوائے کرتے ہوئے آئیں گے،پاکستان ٹیم میں اس وقت تین گروپ موجود ہیں۔ بابر اعظم کا ایک الگ گروپ ہے، دوسرے کھلاڑیوں کا الگ گروپ ہے اور ایک کھلاڑی جو ان دو گروپوں میں پل کا کردار ادا کررہا تھا اس کا اپنا الگ گروپ ہے۔ یہ ٹیم متحد نہیں ہے، پاکستان ٹیم میں کولڈ وار عروج پر ہے، یہ آپس میں بات نہیں کررہے، ایک دوسرے کو برداشت نہیں کررہے۔اسی وجہ سے اس ٹیم کو کامیابی نہیں مل رہی ہے۔محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی اور بابر اعظم تینوں ایک نہیں ہیں اور گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here