قطر اشکِ بلبل : صدائے شکستِ دل!!!

0
37
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

ڈاکٹر محمد مستمر کے چھوٹی بحر میں شعری مجموعہ قطر اشکِ بلبل کی واٹس ایپ موصول ہوئی ، میں نے اس کا بغور مطالعہ کیا۔ رائے کی فرمائش کی ہے، آپ کا شمار بھارت کے نامور نقادوں ،افسانہ نگاروں اور شاعروں میں ہوتا ہے۔ مختصر غزل کا کامیاب تجربہ ہے۔اردو غزل میں اس قسم کا تجربہ بھارت اور پاکستان میں بھی کئی شاعروں نے کیا ہے۔ آپ شاعر کے علاوہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ آپ کی اردو نثری اور شعری خدمات قابلِ ستائیش ہیں۔ فارسی شاعری میں بھی کچھ شاعروں نے مختصر غزل کہی ہے، یہ دلچسپ تجربہ ہے۔آپ کے شعری مجموعہ کا نام قطر اشکِ بلبل ہے۔ بلبلِ فارسی اور اردو شاعری میں ایک استعارہ ہے۔ نال بلبل، فغانِ بلبل، اشکِ بلبل اور گری بلبل سے مراد پریشان حال اور حرماں نصیب غریب عوام ہے جو نالہ کناں ہے اور ان حکمرانوں کے خلاف آوازِ احتجاج ہے جو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور عوام کے مسائل اور مصائب سے نابلد ہیں۔ مرزا غالب نے کہاتھا!
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں
بلبلیں ستم رسیدہ عوام ہیں اور چمن معاشرہ ہے۔ آپ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے لیکن طرزِ ادا جداگانہ ہے۔ آپ کے نالے سن کر بلبلیں غزل خواں بھی ہوئیں اور آپ قطر اشکِ بلبل دیکھ کر خود بھی غزل خواں ہو گئے۔اس ضمن میں مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آ گیا۔ کہتے ہیں!
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ تراخام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
نال خام بلائے جان ہے جبکہ نال پختہ صدائے عوام ہے۔ تجریدی ادب اور آرٹ بھی فاسقانہ اور آمرانہ نظام کے خلاف بغاوت و احتجاج ہے کیونکہ آمر ہمیشہ قوتِ قلم سے خائف رہے ہیں۔میرا ایک شعر ہے!
شکوہِ قلم تم نے دیکھا نہیں
یہ جاہ و حشم تم نے دیکھا نہیں
اہلِ قلم کے سر قلم کرنا آمروں اوربادشاہوں کا وطیرہ رہا ہے لہٰذا شاعرِ پہلو بچا کر بلبل کی آہ و زاری بیان کر کے اپنے دل کی فریاد شعروں میں بیان کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح کبھی ہماری شاعری میں ایک استعارہ ہے۔جب شاعر کہتا ہے کہ گل پژمردہ ہو گئے ہیں تو اِس سے بھی اس کی مراد عوام کی تباہی و بربادی ہوتی ہے۔ شاخِ چمن پر جب گلوں کی جگہ خار ہوں اور بلبل کی جگہ زاغ و زغن ہوں تو اس سے مراد معاشرے کی خستہ حالی اور عوام کی بربادی ہوتی ہے۔ جگر مراد آبادی کا ایک لاجواب شعر ہے۔ کہتے ہیں!
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں
کانٹوں سے نباہ سے مراد عوام کی حمایت اور دلجوئی و دلپذیری ہے۔ ڈاکٹر محمد مستعمر ایک ادبی نابغ روزگار ہیں۔ان کی تحاریر ادبی شاہکار ہیں۔ کتاب کا عنوان قطر اشکِ بلبل ایک جہانِ معنی لیے ہے۔ یہ شعری مجموعہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی دیا کا آئینہ دار ہے۔ آپ کی تنقید کی کتاب پہلو در پہلواور شعری مجموعہ انقلابی قلندر اہلِ نقد و نظر سے داد پا چکے ہیں۔ آپ کا یہ شعری مجموعہ قطر اشکِ بلبل رومانوی، سماجی، انسانی اورانقلابی موضوعات کاعکاس ہے۔ مشتے از خروارے کے طور پر ان کی ایک غزل سے چند اشعار سنیے اور سر دھنیے
شہر میں قیامت ہے
رہنا پھر حماقت ہے
حکمراں کہے مجھ کو
خون میں بغاوت ہے
دھجیاں اڑیں حق کی
اب کہاں عدالت ہے
وہ مراقبے،توبہ !
دین اب تجارت ہے
اِن اشعار میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ظالم حکمرانوں ، بد دیانت رشوت خور منصفوں اور دین فروش مولویوں اور صوفیوں کے خلاف یہ اشعار کسی تازیانے سے کم نہیں۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ مجھے اس حوالہ سے ایران کے نامور جدید لہجے کے شاعر نیما یوشیج یاد آ گئے۔ وہ شعرِ نو کے معروف شاعر ہیں۔جسے شعرِسپید بھی کہا جاتا ہے۔اردو میں ایسی شاعری کو آزاد شاعری کہتے ہیں۔ ان کی ایک رباعی ہے
گفتم : چہ کنم بر زبرموج دچار؟
گفت الحذر از نگاہِ آن افسونکار
گفتم مفری؟ گفت دعا کن نیما
یا رب تو پرہیزم از خلق آزار
یہ خلق آزاری کارِ نظامِ زور و زر ہے۔ یہ غمِ جاناں ہو یا یہ غمِ دوراں ڈاکٹر محمد مستمر کی شاعری میں عیاں ہیں۔ یہ دونوں غم اصل میں غم ِ انساں ہیں اور نظامِ جبر و جور میں اِن سے نجات ممکن نہیں جیسا کہ مرزا غالب بھی کہہ گئے
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
مرنے سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
خداوندِقدوس آپ کی ادبی خدمات کو بر آور کرے۔ ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here