”گریٹر اسرائیل ”

0
38

”گریٹر اسرائیل ”

ہمسائیہ ممالک میں اسرائیلی کارروائیوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران اس نے ایران، شام اور لبنان میں ٹارگٹڈ حملے بھی کیے ہیں اور اقوامِ متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اسرائیلی کارروائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے باک ہوتی جا رہی ہیں۔اسرائیل میں بہت سے یہودی اس خطے کو ‘ایرٹز اسرائیل’ یا ‘لینڈ آف اسرائیل’ کے نام سے جانتے ہیں اور یہ اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے کہیں بڑا جغرافیائی علاقہ ہے۔صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق ‘پرومسڈ لینڈ’ یا گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مصر میں دریائے نیل سے لے کر عراق میں نہرِ فرات تک کے علاقے شامل ہیں یعنی فلسطین، لبنان، اردن، عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور سعودی عرب بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ ہوں گے۔1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا۔اس کے بعد اسرائیلی سیاستدان اور سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ فلسطین کی تقسیم غیر قانونی ہے۔ یروشلم ہمارا دارالحکومت تھا اور ہمیشہ رہے گا اور ایرٹز اسرائیل کی سرحدوں کو ہمیشہ کے لیے بحال کیا جائے گا۔اخبار ٹائمز آف اسرائیل میں ‘زایونزم 2.0: تھیمز اینڈ پروپوزلز آف ریشیپنگ ورلڈ سیویلائزیشن’ کے مصنف ایڈرئن سٹائن لکھتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کا مطلب مختلف گروہوں کے لیے مختلف ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل میں اور ملک سے باہر رہنے والے یہودیوں کے لیے گریٹر اسرائیل کی اصطلاح کا مطلب مغربی کنارے (دریائے اردن) تک اسرائیل کی خودمختاری قائم کرنا ہے۔ اس میں بائبل میں درج یہودیہ، سامرہ اور ممکنہ طور پر وہ علاقے شامل ہیں جن پر 1948 کی جنگ کے بعد قبضہ کیا گیا، اس کے علاوہ اس میں سینائی، شمالی اسرائیل اور گولان کی پہاڑیاں شامل ہیں۔ گریٹر اسرائیل کا تصور اسرائیلی معاشرے میں رچا بسا ہے اور حکومت سے لے کر فوج تک اسرائیلی معاشرے کے بہت سے عناصر اس کے علمبردار ہیںاگرچہ گریٹر اسرائیل کے تصور کے پیچھے اصل خیال یہی ہو سکتا ہے مگر آج کے اسرائیل میں ایک زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ یہ ہے کہ اس میں اسرائیل کی سرحدوں سے باہر کے وہ علاقے بھی شامل ہیں جن پر اس نے طویل عرصے سے قبضہ کر رکھا ہے یعنی مغربی کنارے کے علاقے، غزہ اور گولان کی پہاڑیاں۔’جب بنی اسرائیل مصر سے نکل کر آئے تھے تو اس وقت ان کا مرکز فلسطین تھا جہاں آ کر وہ آباد ہوئے’ اسرائیلی حکومت اسے آج بھی جودیہ صوبے کا حصہ مانتی ہے اور اس کے علاوہ گریٹر اسرائیل میں وہ تمام علاقے شامل ہیں جہاں جہاں یہودی آباد تھے۔ گریٹر اسرائیل ایک ایسی فینٹیسی ہے جو پریکٹیکل نہیں ‘مگر یہودیوں سے زیادہ صیہونی سیاست میں اس کا بہت ذکر ملتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ عملی طور پر اسرائیلی، فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کو اپنا حصہ مانتے ہیں لیکن اگر صرف ‘فینٹیسی’ کی بات کی جائے تو گریٹر اسرائیل میں جزیرہ نما عرب یعنی آج کے سعودی عرب، عراق، اُردن، مصر کے کچھ علاقے اس میں شامل ہیں۔مشرق وسطیٰ کی بیشتر ریاستوں نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے اور بہت سے ممالک نے اسرائیل کے فوجی آپریشن کی شدید مذمت کی ہے۔متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے ابتدا میں حماس کے حملوں کی مذمت کی تھی کیونکہ یہ دونوں ممالک ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے تھے تاہم گذشتہ ہفتے بحرین نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور بحرین میں اسرائیلی سفیر ملک چھوڑ کر چلے گئے۔اُردن نے بھی اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے اور اس پر ‘بے مثال انسانی تباہی’ لانے کا الزام لگایا ہے۔سعودی عرب اگرچہ اسرائیل کے ساتھ ممکنہ معمول کے معاہدے کے بارے میں مہینوں سے بات چیت کر رہا ہے لیکن ابھی وہ ابراہم معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔ اس نے بھی تشدد کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے واضح طور پر حماس کی مذمت نہیں کی ہے۔26 اکتوبر کو متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، سعودی عرب، عمان، قطر، کویت، مصر اور مراکش کے وزرائے خارجہ نے بیک آواز ‘غزہ میں شہریوں کو نشانہ بنانے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی’ کی مذمت کی۔ان کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اپنے دفاع کا حق قانون شکنی اور فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے کا جواز نہیں بنتا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here