ہیوسٹن شہر کی ہسٹری!!!

0
50
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ہیوسٹن امریکہ کا ایک ایسا شہر ہے جہاں بسنے والے پاکستانیوں کی تعداد ہر روز کے حساب سے بڑھ رہی ہے اسی کے مطابق یہاں پر ہونیوالی تقریبات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، پچھلے دو ہفتوں میں مختلف اداروں کے مختلف نوعیت کے کئی ایونٹس ہوئے، سب فنکشن کو کور کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے، بہر حال ایک تقریب کا احوال یہ ہے جس میں مسعود احمد کو لائف ٹائم ایچیومنٹ، ایوارڈ سے نوازا گیا، ایوارڈ وصول کرنے کے بعد مسعود احمد نے تقریر کرتے ہوئے ابتدائی 60 کی دہائی کے کراچی یونیورسٹی کے ان ساتھی اسٹوڈنٹس کا بھی ذکر کیا جنہوں نے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مختلف شعبوں میں ترقی کی اور نام کمایا، اس کے علاوہ اسی دور کے کراچی یونیورسٹی کے چند پروفیسرز کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ مسعود احمد 1981ء سے ہیوسٹن میں رہائش پذیر ہیں اور اس دور کے زیادہ تر پاکستانی انہیں جانتے ہیں۔ ذاتی طور پر نہیں تو کم از کم ان کے کئے گے کاموں سے ضرور واقف ہیں، جس کی ایک طویل فہرست ہے، آج کے اس اداریہ میں، مسعود احمد کی ایچیومنٹ کی تفصیل بتانے کی بجائے توجہ ایک اہم مسئلہ کی طرف مبذول کراتے ہیں، جس کا تعلق اس شعر سے ہے، جو مسعود احمد نے تقریر میں پڑھا!
جو در و دیوار کی زینت ہیں انہیں کو دیکھیں
ہم تو بنیاد کے پتھر ہیں نظر کیا آئیں
جس کے ذریعے وہ اس بات کی طرف دھیان دلانا چاہتے ہیں کہ بلڈنگ کی خوبصورتی کی ہر کوئی تفصیل سے تعریف کرتا ہے، مگر اس کی بنیاد، وہ حصہ جس کے اوپر پوری بلڈنگ بنائی گئی، اس کی مضبوطی یا دیگر خوبیاں بیان نہیں کرتا، بس اگر مضبوط ہے تو بلڈنگ کھڑی رہ سکے گی، اسی طرح آج کل کے دور میں جو کچھ ہماری کمیونٹی کو حاصل ہے اس کی بنیاد کس نے رکھی، غور طلب بات ہے۔ ہیوسٹن کمیونٹی اگر آج مضبوط پُرکشش ہے تو یقیناً اس کی بنیاد کچھ لوگوں نے رکھی ہوگی۔ کون تھے وہ لوگ؟ کہاں ہیں وہ لوگ؟ ہمارے پاس کیا کوئی ایسا ڈیٹا بیس موجود ہے جو ہمارے سینئر کی نشاندہی کر سکے۔ ہسٹری بتا سکے، مثال کے طور پر اردو ریڈیو پروگرام کب کس نے شروع کیا، پچھلے پچاس برسوں میں کون تھے وہ لوگ جنہوں نے اردو ثقافت، فائن آرٹس، پرفورمنگ آرٹس کی ترقی کیلئے کاوشیں کیں اور داغ بیل ڈالی۔ پی اے جی ایچ کب وجود میں آئی۔ پہلا صدر کون منتخب ہوا تھا، پاکستان سینئر کا قیام کن لوگوں کی کاوشوں کا نتیجہ بنا، عید کی نماز پہلی ہیوسٹن میں کس جگہ اور کن حالات میں ممکن بنائی جا سکی۔ حلال میٹ کی دستیابی کیونکر ممکن ہو سکی۔ ان سوالوں کا مقصد محض صرف تنقید کرنا نہیں ہے، بلکہ موجودہ اور آنے والے پاکستانی ہیوسٹن میں نشاندہی کر سکیں اور خصوصی تقریبات میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کر سکیں۔ یہ بات خصوصاً موجودہ دور کے مختلف اداروں، انجمنوں کے سربراہوں کو سمجھنی چاہیے جو اکثر کسی کام بات کا تذکرہ اس طرح کر جاتے ہیں جیسے یہ کام ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ مثال کے طور پر” پہلی بار ہیوسٹن میں پیش کرتے ہیں” یہ حالیہ کسی اشتہار کی کسی ایسے ایونٹ کا تھا جو متعدد بار ہیوسٹن میں ہو چکا تھا۔ مثال کے طور پر مشاعرے، ہیوسٹن میں جتنے زیادہ سننے کو ملیں بہت اچھا ہے مگر کیا یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ایک ہی کام کئی انجمنں، تنظیمیں کریں۔ ایک انجمن اگر موجود ہے تو دوسری قائم کی جائے صرف اس لئے کہ آپ کے خیال میں یوں نہیں یوں پروگرام ترتیب دینا چاہیے تھا۔ اختلاف رائے کا ہونا ایک جمہوری عمل ہے، ضرور ہونی چاہیے مگر اس کی درستگی کیلئے آپ منطقی رائے، مشورہ اور تجاویز سے دوستانہ ماحول میں کر سکتے ہیں۔ لڑائی جھگڑا، ناراضگیاں ایک الگ انجمن بنانا ضروری نہیں۔ یونیٹی کی ترغیب کرنا ضروری ہے اور پاکستانی ہیوسٹن ہیریٹیج کو مل جل کر پروفیشنل طریقے سے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جب ہی ممکن ہو سکے گا جب ہم اپنی سوچ میں تبدیلی لائینگے اور اپنی ذات سے زیادہ ادارے اور پھر پاکستان کیلئے پاکستانی کمیونٹی کیلئے کام کرینگے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here