پچھلے ہفتے خبروں میں آیا کہ اسلا م آباد کے اردگرد علاقے میں شہتوت جیسے پھلدار درختوں کو کاٹا جائے گا جن سے پولن جیسی الرجی پیدا ہو رہی ہے جس سے دمے کے مریضوں کو سخت تکلیف ہو رہی ہے جس کو پڑھ کر دکھ ہوا کہ پاکستانی ناکارہ نابلد اور بے عقل حکمران اور اہلکار درختوں، پودوں، پھلوں اور پھولوں کے دشمن نظر آرہے ہیں جو شہتوت جیسے قیمتی پھلدار درختوں کو کاٹ کر نسل تباہ کرنا چاہتے ہیں کہ شہتوت جیسا پھلدار درخت کتنا اہم اور لازم ہے جس کے پھل سے نہ جانے کونسی کونسی بیماری کا علاج ہوتا ہے جس پر قدرت سے محبت کرنے والے اور زمانہ قدیم کے معالج حکیموں کو موجودہ حکمرانوں کا گھیرائو کر لینا چاہتے جو ایک ایسے پھلدار درخت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جس کا پھل صحت کے لئے فائدہ مند ہے کاش یہ درخت کے کاٹنے کا اعلان امریکہ جیسے ملک میں ہوتا تو عوام حکمرانوں کے باجے بجا دیتے جہاں سرکاری طور پر پودا اور درخت کاٹنا منع ہے تو درکار لوگ اپنے گھروں کے درخت حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں کاٹ سکتے ہیں بشرطیکہ درخت بیمار نہ ہوجائے جبکہ امریکہ میں پولن جیسی الرجی پاکستان سے زیادہ پھیلتی ہے جو موسم بہار باخزاں میں آتی پھر سخت سردیوں اور گرمیوں میں غائب ہوجاتی ہے تاہم پاکستان میں شہتوت کی پولن کی نسبت پورے ملک میں کچے دھوئیں کی بھرمار ہے جس سے انسان بیمار ہو کر موذی امراض میں مبتلا ہو رہا ہے یا پھر سہولیات کی آلودگی اور گندے پانی سے لوگ مختلف امراض کا شکار ہیں جس کے بارے میں کوئی سخت ایکشن نہیں لیا جارہا ہے ناہی جعلی دوائیوں کی بناوٹ پر کوئی ردعمل آتا ہے ناہی عوام کی صحت کے مدنظر علاج معالجہ کا کوئی انتظامات ہیں۔ حکمرانوں اہلکاروں اور قدرت کے دشمنوں کی صرف درخت پودے گھاس پوس نظر آتا ہے جس کو اُگانا، پالنا اور دیکھ بھال کرنا جرم تصور ہوتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان محولیات کی گندگی کا شکار ہو چکا ہے جس سے نہ جانے کونسی کونسی امراض پھیل چکی ہیں بہرحال پاکستان میں درختوں نہ اگانا یا کاٹنا ایک کلچر بن چکا ہے جس کی وجہ سے بعض قدیم درخت ناپید ہوچکے ہیں جو کبھی پھیل اور سرمایہ دیا کرتے تھے آج ان کا نام کتابوں میں رہ گیا ہے کہ کوئی ون، ٹالھی، کیکر، بوڑہ، یا دوسرے درخت اور پودے تھے جن کا وجود ختم ہوچکا ہے یہی وجوہات ہیں کہ لاہور شہر آلودگی کی وجہ سے ہر سال موسم سرما کے بعد فوگ اور سموگ میں پھنس جاتا ہے اگر درختوں کی کثیر تعداد ہو تو یہ محولیات کی آلودگی کو کھا جاتی ہے چونکہ پاکستانی عوام میں گھروں اور پاروں درختوں کو کاٹ کر سردیوں اور گرمیوں کے رقم وکرم پر فرشوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو سردیوں میں سخت سرد اور گرمیوں میں سخت گرم ہوجاتے ہیں جس سے سردی اور گرمی میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے جس سے انسانی زندگی تنگ آجاتی ہے جس کے باوجود درختوں اور پودوں کی کٹائی جاری رہتی ہے۔
٭٭٭