آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مذاکرات!!!

0
23

آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ سات ارب ڈالر کے جاری قرض پروگرام کی اگلی قسط کی فراہمی کے لئے ہونے والے مذاکرات کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو فنڈز فراہم کرنے پر بھی مثبت اشارے دئیے ہیں۔ حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کو قائل کیا کہ جون کے اختتام سے پہلے کوئی منی بجٹ پیش نہیں کیا جائے گا۔وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق آئی ایم ایف نے ملک کی معاشی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، جس سے 7 بلین ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت 1 بلین ڈالر کی اگلی قسط کے اجرا کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف حکام نے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے متعددملاقاتیں کیں جن میں مالی سال کی پہلی ششماہی کی اقتصادی کارکردگی اور مستقبل کے پالیسی اہداف کا جائزہ لیا گیا۔فنڈ نے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا، خاص طور پر ریٹیل، ہول سیل، رئیل اسٹیٹ اور ڈیلرشپ کے شعبوں سمیتاس بات پر زور دیا گیاکہ زیادہ سے زیادہ کاروباروں کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جانا چاہیے تاکہ پائیدار آمدنی کو یقینی بنایا جا سکے۔آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات 37 ماہ کے توسیعی انتظام کے تحت پہلے جائزے پر سٹاف لیول ایگریمنٹ تک پہنچنے کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ رپورٹس کے مطابق قرض پروگرام پر عمل درآمد مستحکم رہا ہے۔ بات چیت میں کئی شعبوں کے حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے جس میں عوامی قرضوں کو مستقل طور پر کم کرنے کے لیے منصوبہ بند مالیاتی استحکام، کم افراط زر کو برقرار رکھنے کے لیے سخت مالیاتی پالیسی کو برقرار رکھنا، توانائی کے شعبے کی عملداری کو بہتر بنانے کے لیے لاگت میں کمی کی اصلاحات کو تیز کرنا، پاکستان کے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد اور سماجی تحفظ کو فروغ دینا، تعلیم اور صحت کی بہتری کے ایجنڈے کو مضبوط بنانا شامل ہیں۔ پاکستان پچھلے کئی برسوں سے شدید بارشوں، سیلابوں ، قحط سالی اور درجہ حرارت میں اضافے کا سامنا کر رہا ہے۔موسمی تغیرات زراعت کے مسائل ، پانی کی دستیابی اور آبادی کے رہن سہن کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔یہ خوش آئند ہے کہ موسمیاتی اصلاحات کے ایجنڈے پر بات چیت میں بھی پیشرفت ہوئی ہے، جس کا مقصد قدرتی آفات سے متعلق خطرات سے خطرات کو کم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ اصلاحات لائی جا سکیں گیجس کے تحت ممکنہ مدد حاصل کی جا سکے گی۔تاہم موسمیاتی فنڈز شفاف طریقے سے طے شدہ منسوبوں پر ہی خرچ ہونے چاہئیں۔آئی ایم ایف مشن اور حکومت آنے والے دنوں میںان منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے لیے عملی طور پر پالیسی پر بات چیت جاری رکھیں گے۔اس سے قبل ہونے والے اجلاسوں میں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس وصولی میں بہتری کے حوالے سے آئی ایم ایف کو یقین دہانیاں فراہم کیں، جن میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے اور محصولات کی کمی دور کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے ٹیکس ریونیو کی مد میں 15,000 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے اور اس کا مقصد نان ٹیکس ذرائع سے 2,745 ارب روپے اکٹھا کرنا ہے۔آئی ایم ایف نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ امیر طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کرے، بڑے صنعت کاروں پر سپر ٹیکس نافذ کرے اور بڑے زمینداروں کی زرعی آمدنی پر براہ راست ٹیکس نافذ کرے۔ پاکستان کا قرض، جو اس کی 350 ارب ڈالر کی معیشت پر سب سے بڑا دباو ہے،اس کی ادائیگی کے لئیاگلے تین برسوں میں 90 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ بینک کے پاس اس وقت غیر ملکی ذخائر تیرہ ارب ڈالر ہیں جو صرف دو ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق آئی ایم ایف سے لئے گئے سات ارب ڈالر کے اس قرض کا بنیادی مقصد پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی میں آسانی پیدا کرنا ہے۔حکومت کہہ رہی ہے کہ قرضوں کی ادائیگی و بجٹ کسارے کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کی مدد درکار ہے ۔حکومت نے ایک پروگرام رول اوور کے ارد گرد بنایا ہے، مالیاتی خلا کو پر کرنے کے لیے کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینا بھی معمول بن چکا ہے ۔یہ قرضے شاید ہی پاکستان کے معاشی اور مالیاتی چیلنجوں کا کوئی پائیدار حل نکال سکیں۔ماہرین کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں حکومت اپنے گورننس کے ڈھانچے میں بچت نہیں لا رہی۔ قرض دہندہ کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان آئی ایم ایف کا پانچواں بڑا مقروض ملک ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سامنے ایک چیلنج آئی ایم ایف معاہدے کے تحت درکار اصلاحات کے متعلق وسیع سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا: بشمول ٹیکس، توانائی کے نرخوں میں اضافہ اور مارکیٹ فورسز کو پاکستانی روپے کی قدر کا تعین کرنے کی اجازت دینا۔فیصلہ سازقوتیں اگر کامیاب ہو سکیں توسیاسی استحکام پروگرام اور معیشت کی تقدیر کا تعین کرے گا۔ اس پروگرام میں بیان کردہ اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد مختلف سیاسی جماعتوں سے انتہائی اعلی سطح کے عزم کا مطالبہ کرتے ہیں۔گزشتہ 3 سال کے دوران، پاکستان کو سیاسی انتشار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کا تسلی بخش رہنا وقتی سہولت کا باعث ہے جس پر اطمینان کا اظہار مناسب نہیں، سیاسی و معاشی استحکام کے لئے سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے ہی اصل کام ہے جس کے لئے کوشش کی جانی چاہئے ۔
س٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here