پاک بھارت کشیدگی میں اداکار کو رائے دینے سے گریز کرنا چاہیے، علی اکبر

0
116

واشنگٹن:

فلم ’’لال کبوتر‘‘اور ڈراما سیریل’’عہد وفا‘‘ سے شہرت حاصل کرنےوالے اداکار احمد علی اکبر کا کہنا ہے کہ فنکاروں کو ایسا لگتا ہوکہ سوشل میڈیا پر حب الوطنی کا مظاہرہ کرنے سے ان کی فالوونگ اور مقبولیت بڑھ جائے گی۔

حال ہی میں اداکار علی اکبر نے اپنی فلم’’لال کبوتر‘‘کے لیے واشنگٹن کے سالانہ جنوبی ایشیائی فلمی میلے میں بہترین اداکار کا جیوری ایوارڈ اپنے نام کیا ہے۔  اپنی فلم کے حوالے سے علی اکبر نے  وائس آف امریکا کو دئیے گئے انٹرویو میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی فلم کراچی میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہے اور لوگوں کو یہ فلم پسند آئے گی۔

علی اکبر نے پاکستانی اور بالی ووڈ فلموں میں مماثلت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستانی پچھلی تین چار دہائیوں سے بھارتی فلمیں دیکھ رہے ہیں ہم ان کے گانے گنگاتے ہیں لہذا ہم نہ بھی چاہیں تو ہماری فلمیں ان سے متاثر ہوتی ہیں۔

 

اس خبرکوبھی پڑھیں: احمد علی اکبر بہترین اداکار قرار

ایک پاکستانی فلم کو کیسا ہونا چاہیے اس حوالے سے علی اکبر کا کہنا تھا کہ ہماری آدھی فلمیں ویسی ہی ہوں گی جیسی کہ بالی ووڈ فلمیں ہوتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور دونوں جانب کے عوام کے درمیان سوشل میڈیا پر ہونے والی جنگ کے بارے میں علی نے کہاکہ انہیں یہ سب دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔

علی اکبر نے کہا اس صورتحال میں ایک ذمہ دار اداکار کو اپنی رائے دینے سے گریز کرنا چاہیئے کیونکہ ہماری رائے ساری زندگی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ہوسکتا ہے فنکاروں کو ایسا لگتا ہوکہ سوشل میڈیا پر حب الوطنی کا مظاہرہ کرنے سے ان کی مقبولیت بڑھ جائے گی اور لوگ زیادہ تعداد میں انہیں فالو کریں گے۔ ویسے تو اداکاروں کو وہ کرنا چاہیئے جو وہ کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں تھوڑی ذمہ داری کامظاہرہ کرنا چاہیئے کیونکہ ان پر بہت زیادہ لوگوں کی نظر ہوتی ہے۔

علی اکبر نے سوشل میڈیا پر زیادہ فعال نہ ہونے کہ وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں ان کی مینٹل ہیلتھ (ذہنی سکون) بہت پیارا ہے اسی لیے وہ سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتے۔ کیونکہ لوگ سوشل میڈیا پر آپ کا موازنہ کرتے ہیں اور یہ چیز آپ کو ڈپریشن میں مبتلا کرسکتی ہے۔

پاکستانی ڈرامے میں جدت کے بارے میں علی اکبر کا کہنا تھا کہ اب ہمارے یہاں نئے لوگ آرہے ہیں لیکن کام زیادہ اور مقابلہ سخت ہونے کی وجہ سے کوالٹی نیچے جارہی ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں خواتین کے موجودہ رونے دھونے والے کرداروں کے بارے میں علی کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ صرف خواتین کے کرداروں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ مَردوں کو بھی اکثر اسی طرح کے دقیانوسی کرداروں میں دکھایاجاتاہے۔

ہمارے یہاں کے ڈراموں میں 80 فیصد مردوں کے کردار اس طرح کے ہوتے ہیں کہ ’’لڑکا امریکا سے پڑھ کر آیا ہوتا ہے جو  اب جاب کررہا ہے اور اسے اپنے لیے رشتہ ڈھونڈنا ہوتا ہے۔‘‘ لہذٰا خواتین کے کرداروں کے ساتھ بھی بالکل اسی طرح کیا جاتا ہے تاہم اب آہستہ آہستہ یہ ٹرینڈ تبدیل ہورہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here