کیا عمران خان ناکام ہوگیا؟

0
181
اوریا مقبول جان

کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہوتی ہے۔ اس کا خمیر اس مٹی سے گندھا ہے جو ہر حال میں مروجہ صورت حال کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ برصغیر پاک وہند کی بیوروکریسی تو اس فن کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ اس کا آغاز تو ملاحظہ کیجئے۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال اور دیگر علاقوں میں حکومت بنا چکی تھی۔ برطانوی حکومت نے اسے ہندوستان چار لاکھ پاو¿نڈ کے اجارہ پر دے رکھا تھا لیکن اس کے افسران میں کرپشن اور اقربا پروری اس قدر بڑھ چکی تھی کہ 1768ءکے بعد کمپنی سالانہ چار لاکھ پاو¿نڈ بھی ادا کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ ملازمین کو کرپشن اور اقربا پروری کی لعنت سے پاک کرنے کیلئے برطانوی پارلیمنٹ نے 1773ءمیں ریگولیٹنگ ایکٹ پاس کیا جو برصغیر میں سول سروس کی بنیاد بنا۔ آج تقریبا ڈھائی سو سال گزرنے کے بعد یہ سول سروس عین اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں کرپشن اور اقربا پروری کی جونکیں اسے چمٹی ہوئی تھیں، بلکہ اب ان میں دو مزید جونکوں کا اضافہ ہوچکا ہے اور یہ جونکیں ”نااہلی” اور ”سیاسی گروہ بندی” ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ انگریز نے 1857ءمیں دلی کے تخت پر براجمان ہونے سے پانچ سال پہلے ہی تاج کی وفادار سول سروس بنانے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ وہ تمام ملازم جو ایسٹ انڈیا کمپنی میں اعلی بیوروکریسی کا حصہ تھے، انہیں مشہور ہیلے بری کالج لے جایا گیا اور وہاں انکو مخصوص ٹریننگ دی گئی، جس کا بنیادی مقصد ایک ایسا مضبوط ڈھانچہ فراہم کرنا تھا جو حالات وحوادث کے زد میں بھی قائم رہے اور تاج برطانیہ کی حکومت کو مضبوط بھی رکھے اور عوام کو بھی اس مسلسل ”غلامی کی نعمتوں” پر اکتفا کرکے سکون اور امن بحال رکھے۔ اس تربیت سے جو افراد نکھر کر سامنے آئے وہ آج تک کی برصغیر پاک وہند کی بیوروکریسی کے رول ماڈل ہیں۔ اس بیوروکریسی کو مضبوط و مستحکم رکھنے کے لیے 1861ءمیں انڈین سول سروس ایکٹ منظور کیا گیا جس کی کوکھ سے ایک کالا انگریز افسر برآمد ہوا جو اپنے نام کے ساتھ آئی سی ایس کا تمغہ سجاتا تھا۔ پاکستان بنا تو یہ غلامی کا طوق ویسے ہی پہچان کے طور پر قائم رکھا گیا۔ فرق صرف یہ آیا کہ انڈین سروس کی ”آئی” کی جگہ سول سروس کے آخر میں پاکستان کی ”پی ”لگا کر سی ایس پی (C.S.P) بنا دیا گیا۔ اس انڈین سول سروس نے تاج برطانیہ کے مفادات کا تحفظ کیا اور یوں وہ خود ہندوستان کے عوام سے بالکل الگ تھلگ ایک طبقہ بن کر ابھری۔ ایک ایسا گروہ جو بالادست بھی تھا اور اپنے مفادات کیلئے اکٹھا بھی۔ تمام مالی، قانونی بلکہ یہاں تک کہ سیاسی اختیار کا منبع و مرکز بھی یہی طبقہ تھا۔ اس انڈین سول سروس کو عدلیہ اور فوج سے زیادہ بااثراور طاقتور اسی لئے رکھا گیا تھا کیونکہ یہی بیوروکریسی ہندوستان میں ایسے امن و سکون کی ضامن تھی جو تاج برطانیہ کے اقتدار کو مستحکم کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعدبھی انہوں نے کسی طور پر خود سے سینئر باقی دو گروہوں یعنی سیاسی اشرافیہ اور فوجی بیوروکریسی کی بالادستی کو قبول نہیں کیا۔ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے توڑنے کا کارنامہ جو ایک بیوروکریٹ گورنر جنرل غلام محمد نے سر انجام دیا،اس سے لے کر پہلے مارشل لا کا سہرا بھی بیوروکریٹ صدر سکندر مرزا کے سر ہی رہا۔ اسوقت تک عدلیہ اپنی گذشتہ برطانوی راج کی روش پر چلتی ہوئی تاج کے ان وفاداروں کے فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کرتی تھی۔لیکن پھر اس سول سروس کی جونیئر پاٹنر یعنی فوج کو احساس ہوا کہ اصل طاقت کا سرچشمہ تو وہ ہیں۔ پاکستانی عدلیہ کے متنازعہ چیف جسٹس منیر احمد نے جب سکندر مرزا کے مارشل لا کو جائز قرار دیا تو جنرل ایوب نے اسی رات سول بیوروکریسی کے نمائندے سکندر مرزا کو معزول کرکے خود اور اپنے ادارے فوج کو سینئر پارٹنر بنا دیا۔ اس کے بعد یہ جونیئر پارٹنر”بیوروکریسی ” مسلسل اپنے نئے بننے والے سینئر پارٹنر ”فوج ”کے ساتھ مل کر آج تک صرف ایک ہی فریضہ انجام دیتی چلی آ رہی ہے یعنی مروجہ صورت حال کا تحفظ۔ یعنی امیر، غریب، وڈیرہ، ہاری، آفیسر، کلرک، سیاستدان، سیاسی ورکر سب اپنی جگہ خوش و خرم رہیں۔ کوئی ہاری، وڈیرہ بننے یا سیاسی ورکر، لیڈر بننے کی خواہش نہ کرے۔ کوئی اگر نچلے طبقے سے اوپر چلا آئے تو اسے ایسے اپنے رنگ میں رنگ لیا جائے کہ وہ اپنی ذات، اوقات اور مقام بھول کر مقتدر قوتوں کا ساتھی لگنے لگے۔ سول بیوروکریسی کے اس رویے کو جس کسی نے بھی چیلنج کرنے کی کوشش کی، انہوں نے اسے نشان عبرت بنادیا۔ انکے خلاف جو بھی رپورٹ مرتب ہوئی وہ ڈسٹ بن ہی نہیں بلکہ گٹر کی زینت بنا دی گئی۔ جسٹس کارنیلس کی 1959ءسے 1962ءتک تین سالہ محنت پر مبنی رپورٹ نے تبدیلی کی سفارشات مرتب کیں لیکن انہوں نے جنرل ایوب کو اس تبدیلی سے ایسا خوفزدہ کیا کہ اس نے کانوں کو ہاتھ لگا لئے اور رپورٹ دفن کر دی گئی۔ ذوالفقارعلی بھٹو جس نے انکے ساتھ کم از کم پندرہ سال کام کیا تھا، وہ انکی رگ رگ سے واقف تھا۔ بھٹو 1973 ئ میں ایسی اصلاحات لے کر آیا کہ جس نے انکا ڈھانچہ تک بدل کر رکھ دیا۔ لیکن صرف تین سال بعد انہوں نے بھٹو کو اپنے سامنے سرنگوں ہونے پر ایسا مجبور کیا کہ وہ سیاسی فیصلے تک ان سے پوچھ کر کرنے لگا۔ آخری دفعہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں انکے سابقہ جونیئر پارٹنر اور موجودہ سینئر پارٹنر ”فوج” نے ڈالیں۔ پرویز مشرف نے جنرل تنویر نقوی کے این آر بی سے انکا ڈھانچہ ادھیڑ کر رکھ دیا اور جنرل امجد کے نیب کے ذریعے ان کی کرپشن پر انہیں پکڑنا شروع کیا۔صرف چند ایک ہی پکڑے گئے تھے کہ انہوں نے حکومتی مشینری کو ایسا جام کیا کہ مشرف کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ نظام حکومت کیسے چلائے۔ نیب کے سارے دانت نکال دیے گئے اورجنرل تنویر نقوی کا ناظم سسٹم ایسا زمین بوس ہوا کہ آج وہی سابقہ ناظم دپٹی کمشنر کے دروازوں کے باہر درخواست لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر ایسی قوت جو تبدیلی لانا چاہتی ہے، اسکو ایسا کرنے سے روکنے کیلئے ان کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے خوف۔سرکاری مشینری جام کرنے کی خاموش دھمکی۔ عمران خان نے تو ابھی انکے بارے میں صرف گفتگو ہی کی تھی، کوئی قدم ہی نہیں اٹھایا تھا کہ انہوں نے اسے ایسا خوف زدہ کیا کہ وہ الٹے پاو¿ں واپس لوٹ گیا۔ اس دفعہ انہوں نے ایک نیا ہتھیار استعمال کیا۔ خوفزدہ کرنے کیلئے اینکروں اور کالم نگاروں سے تجزیہ کروائے گئے یہ سب حضرات انکی عنایات خسروانہ اور مراعات کے مدتوں سے مزے لوٹتے رہے تھے۔ ایک سال میں ایسا رونا پیٹنا ڈالا گیا کہ اگر اس بددیانت کو پکڑا گیا، فلاں بددیانت کو رہا نہ کیا گیا پورا تو نظام تلپٹ ہوکر رہ جائے گا۔ وہ بیوروکریسی جس نے گذشتہ چالیس سال میں کرپشن اور بد دیانتی کو سکہ رائج الوقت بنایا۔ جنہوں نے تمام کاموں میں تیز رفتاری صرف اس لیے دکھائی کہ ان سے انکی کمیشن اور کک بیک وابستہ تھی۔ جن افسران کے اثاثوں کے ڈکلیریشن آج بھی مقدس ہیں اور کوئی انہیں چھو بھی نہیں سکتا، چھاپ نہیں سکتا۔ جنہوں نے اس ملک میں چالیس سال سے سیاسی آقاو¿ں کے ذریعے میڈیا کے منہ موتیوں سے بھرے، سیاستدانوں کو بددیانتی کے گر سکھا کر انہیں ارب پتی بنایا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ پورا گروہ آج عمران کو اتنی سی بات سے خوفزدہ کر چکا کہ اگر تم نے ہم سے کرپشن پر سوال کیا تو ہم حکومتی پہیہ جام کر دیں گے۔خان صاحب !یہ پہیہ ان قوانین سے جام ہوتا ہے جو انہوں نے خود بنائے ہوئے ہیں۔یہ سرخ فیتہ انہوں نے خود تخلیق کیا ہے۔ جس دن عمران خان میں یہ ہمت آگئی کہ وہ یہ تمام قوانین بدل سکے، رولز آف بزنس نئے مرتب کر سکے، اس دن تبدیلی بھی آجائے گی۔ ورنہ ابھی تک وہ ناکامی کی سیڑھی پر تیزی سے پھسل رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here