بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر پوری دنیا میں کشمیری باشندوں نے یوم سیاہ منایا اور بھارتی سفارت خانوں کے سامنے احتجاج کیا ہے۔ بھارتی فوج نے اپنے یوم جمہوریہ پر تین کشمیری باشندوں کو شہید کر کے واضح کر دیا ہے کہ بھارت کا نظام اپنے شہریوں کے پرامن مطالبات کا حل پیش کرنے کے قابل نہیں رہا اور ریاست ایک قابض اور جابر قوت کے طور پر بروئے کار ہے۔ اس کی کارروائیاں عالمی برادری کے بار بار مطالبے کے باوجود پردے میں رکھی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں کانگرس کے رہنما راہول گاندھی کا بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے آر ایس ایس پر کشمیری خواتین کی بے حرمتی کا الزام لگایا ہے۔ جمہوریت کے کئی روپ اور اس کے تصور کی کئی وضاحتیں موجود ہیں لیکن جمہوریت کے موضوع پر تحقیق کرنے والے تمام ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ کسی سماج کی تمام برادریاں وہاں کے ریاستی اختیارات کی حصہ بقدر حیثہ مختار ہوں تو اسے جمہوری سماج کہا جا سکتا ہے۔ کسی ملک کی شناخت اس کا ریاستی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ جدید دنیا ان ریاستوں کو مہذب شمار کرتی ہے جہاں اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ انسانی حقوق کی حفاظت ہوتی ہے‘ جہاں کسی لسانی‘ مذہبی اور نسلی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تو کانگرسی قیادت سمیت ہندو رہنماﺅں نے اسے غیر منطقی قرار دیا۔ اعتراض کیا گیا کہ مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی بات برصغیر کے باشندوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ اس طرح کے اعتراضات کا جواب قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ احسن انداز میں دیا اور ہندو ذہنیت کو جمہوری اور سیکولر اقدار کا دشمن قرار دیا۔ انہوں نے اس وقت بھی ایسے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ ہندو اکثریت آزادی کے بعد مسلمانوں کا استحصال کرے گی۔ یہ درست ہے کہ تحریک آزادی کے وقت کانگرسی قیادت نے بہت سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو سنہرے خواب دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس امر کا کانگرس کو فائدہ ہوا کہ آسام اور مغربی بنگال کے کئی علاقوں کی طرح پنجاب کے کچھ اہم علاقے بھی بھارت میں شامل کر دیے گئے۔ بھارت کی جمہوریت کا بھرم قائم تھا وہ اقلیتیں آج اس سے آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند عشروں میں بھارتی سماج میں انتہا پسندی کو فروغ ملا ہے۔ اس انتہا پسندی نے بابری مسجد کو شہید کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن‘ جینو سائیڈ کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپ کا انسانی حقوق کمیشن اور او آئی سی متعدد بار تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ دولت مشترکہ اور وہ تمام عالمی فورمز جہاں جمہوریت کو رکنیت کے لئے بنیادی اہلیت قرار دیا جاتا ہے وہاں رجوع کر کے بھارت کی جمہوری اقدارسے روگردانی کا پردہ ضرور فاش کیا جانا چاہئے۔ گجرات میں ہزاروں مسلمان قتل کر دیے گئے۔ساری دنیا نے دیکھا کہ انتہا پسند ہندوﺅں کے ہر سنگین جرم پر سپریم کورٹ نے کس طرح آنکھیں بند کر لیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی سوچ عدلیہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ مودی کی قیادت میں بھارت تیزی سے ایک بے رحم فسطائیت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بھارت میں اب جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لئے گنجائش نہیں رہی۔ پانچ اگست 2019ءکو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی اور مقامی آبادی سے پوچھے بنا یکطرفہ طور پر کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی۔ اس سراسر غیر قانونی اور ناجائز عمل کے خلاف کشمیری باشندے سراپا احتجاج ہیں۔ ان کے احتجاج کو کچلنے کے لئے بھارت نے ایک طرف 9لاکھ سے زاید فوج مقبوضہ وادی میں تعینات کر رکھی ہے اور دوسری طرف وادی کے باشندوں کے بنیادی انسانی اور شہری حقوق غصب کر رکھے ہیں۔ بھارتی فوج اور پولیس مقبوضہ وادی میں پانچ ماہ سے خفیہ آپریشن کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت تو 72برس سے رستا ہوا زخم ہے لیکن مسلمانوں پر شہریت قانون کی شکل میں جو تازہ زخم لگایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 18کروڑ مسلمانوں کو بھارت چھوڑنے یا پھر مرنے کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں پہلی بار مسلمان خواتین اور بچے احتجاج کے لئے گھروں سے نکلے ہیں۔ اترپردیش‘ بنگال‘ اڑیسہ‘ آسام‘ دہلی اور بہت سی دوسری ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ چالیس کے لگ بھگ مسلمان شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ہر روز مسلمان آبادی کے لئے نئے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ انتہا پسند گروہ پولیس کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں۔ بھارتی جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ حکمران بی جے پی نے گزشتہ دو عام انتخابات میں کل آبادی کا 20 فیصد کے لگ بھگ مسلمانوں کو اپنے ٹکٹ کے لئے 2فیصد کا حقدار بھی نہیں سمجھا۔
مسلمانوں کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے پارلیمنٹ گزشتہ 6برسوں کے دوران کوئی اقدام نہیں کر سکی۔ بھارت کو اپنے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا جو فخر تھا آج وہ مظلوم اقلیتوں کے خون کی صورت میں بہہ رہا ہے۔