پمسیٹ سے فارغ التحصیل طلبا کی اسنادکی تصدیق کا معاملہ الجھ گیا

0
167

کراچی:

کراچی میں قائم پمسیٹ PIMSAT انسٹی ٹیوٹ آف ہائرایجوکیشن سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا و طالبات کی اسناد کی تصدیق کا معاملہ الجھ گیا ہے۔

کئی برس گزرنے کے باوجود اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان اس ادارے کی جانب جاری کی گئی مختلف ضابطوں کی ہزاروں اسنادکی تصدیق کاعمل شروع نہیں کرسکاہے جس کے سبب یہاں سے فارغ التحصیل طلبا بدترین مشکلات سے دوچارہیں، یہ طلبہ الیکٹرونکس ،میکینکل ،آئی ٹی، کمپیوٹر سائنس، بی بی اے اورایم بی اے سمیت دیگرکئی ضابطوں سے گریجویشن کرنے کے بعد اپنے اسناد لیے لیے گھوم رہے ہیں۔

تاہم ایچ ای سی کی جانب سے اسناد کی تصدیق نہ ہونے کے سبب یہ طلبہ مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے نہ تو کسی دوسرے تعلیمی ادارے میں داخلہ حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی بیرون ملک قائم جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے لیے درخواست دینے کے اہل ہیں،کئی ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن میں بیرون ملک مختلف پیشہ ورانہ شعبوں سے وابستہ طلبہ ایچ ای سی سے اسناد کی تصدیق نہ ہونے کے سبب اپنی ملازمت چھوڑکرپاکستان واپس لوٹ چکے ہیں۔

 

واضح رہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن اس ادارے کونئے داخلہ شروع کرنے سے پہلے ہی روک چکاہے اورانسٹی ٹیوٹ کئی برس سے نئے داخلے نہیں دے رہا۔

’’ایکسپریس‘‘نے اس حوالے سے پمسیٹ سے فارغ التحصیل ہونے والے کئی طلبہ سے بات چیت کی ہے جس میں ان طلبا کاکہناہے کہ انھیں مذکورہ انسٹی ٹیوٹ سے ’’پاس آؤٹ‘‘ہوئے کئی کئی برس گزرچکے ہیں وہ ایچ ای سی جاتے ہیں توانھیں بتایا جاتا ہے کہ یہ معاملہ ایچ ای سی اسلام آباد میں زیرغورہے وہاں سے جیسے ہی فیصلہ ہوگاکراچی سے ان کی اسناد کی تصدیق کاعمل شروع ہوسکے گا۔

اسلام آباد رابطہ کیاجاتاہے توسوائے طفل تسلیوں کے ہمیں کچھ نہیں ملتااورکہاجاتاہے کہ اپنے انسٹی ٹیوٹ جاکررابطہ کریں جب ہم انسٹی ٹیوٹ جاتے ہیں توانسٹی ٹیوٹ میں ہمیں کوئی خاطرخواہ جواب نہیں ملتا، صرف یہ کہاجاتاہے کہ ہم توڈگری جاری کرچکے ہیں اب یہ توایچ ای سی کاکام ہے کہ آپ کی اسناد کی تصدیق کریں، حاصل کلام یہ ہے کہ اب ہم طلبا تھک چکے ہیں ہم نے لاکھوں روپے خرچ کرکے گریجوکیشن کی تعلیم مکمل کی ہے لیکن ہماری سندکی اہمیت محض ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے۔

ایک طالب علم نے یہ بھی بتایا کہ انسٹی ٹیوٹ سے انھیں معلوم ہواہے کہ کل 5700طلبہ کی اسناد کی تصدیق رکی ہوئی ہیں، ہم نے وزیراعظم سیٹزن پورٹل پردرخواست دی تومعلوم ہواکہ کراچی کیمپس کی ڈگری تصدیق ہوسکتی ہے تاہم ایچ ای سی تصدیق کے لیے تیار نہیں۔

ادھراعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کے ایک افسر نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ ایک انکوائری 2017میں ہوئی تھی جس کے بعد پمسیٹ انسٹی ٹیوٹ میں زائد داخلے دینے اوربراہ راست اسناد جاری کردینے سمیت دیگربے ضابطگیاں سامنے آئی تھیں، انسٹی ٹیوٹ نے پہلے ایچ ای سی کوبتایاتھاکہ ان کے 9ہزارطلبا ہیں جن کی اسناد کی تصدیق ہمیں کرنی تھی پھر125اوربعد میں 2ہزارازاں بعد 500کی لسٹ بھیج دی، پھرانکوائری کمیٹی بنادی گئی اوران سے کہاگیاکہ گریجویٹ کی لسٹ فراہم کریں ان کے پاس کوئی ریکارڈ ہی نہیں، ایک بارلسٹ منظورہوتی ہے کہ یہ ہمارے فائنل گریجویٹ ہیں پھربعد میں کہتے ہیں کہ یہ نام شامل ہونے سے رہ گئے تھے جس سے معاملہ مزیدمشکوک ہوگیا۔

ایچ ای سی کے ہی ایک دوسرے افسرکاکہناتھاکہ پمسیٹ کی ڈیٹاویریفیکیشن کے حوالے سے انکوائری کرکے رپورٹ متعلقہ ڈی جی طاہر عباس کوبھجوائی گئی ہے اس رپورٹ کی روشنی میں ایچ ای سی کومزیدکارروائی کرنا ہے، ڈیٹا ویری فکیشن کی اس رپورٹ میں ادارے میں اصلاحات کے حوالے سے سفارشات بھی دی گئی ہیں۔

’’ایکسپریس‘‘نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کراچی ریجن کے قائم مقام ڈائریکٹرحاکم تالپور سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیاتوان کاکہناتھاکہ ایچ ای سی 8ہزارطلاہ کی ایک لسٹ منظورکرچکاہے یہ طلبا 2015تک فارغ التحصیل ہیں ان کی ویریفیکیشن شروع کرچکے ہیں تاہم ابھی 2015کے بعد کے فارغ التحصیل طلبہ کی لسٹ ایچ ای سی پاکستان کے ڈائریکٹرجنرل طاہر زیدی کے پاس ہے وہی اس لسٹ کافیصلہ کریں گے، حاکم تالپورنے مزیدبتایاکہ اس ادارے کی ایک لسٹ کامعاملہ لاہورہائی کورٹ میں بھی زیرسماعت ہے جبکہ لاہورہائی کورٹ اس مزیدتحقیقات کے لیے نیب کے حوالے کرچکی ہے۔

’’ایکسپریس‘‘نے پمسیٹ کے سربراہ منوراحمدسے بھی ادارے کاموقف جاننے کے لیے رابطہ کیاجس پر ان کاکہناتھاکہ بچوں نے سپریم کورٹ میں کیس کررکھاہے، معاملہ عدالت میں ہے، ایچ ای سی کیا فیصلہ کریگی تاہم جب ان کوبتایاگیاکہ ایچ ای سی کاکہناہے کہ وہ کچھ عرصے میں ویریفکیشن شروع کردے گی توان کاکہناتھاکہ ظاہرہے ایچ ای سی کوڈگریوں کی تصدیق شروع کرنی ہے، انھوں نے تصدیق کی کہ ایچ ای سی نے ہمیں نئے داخلوں سے روک رکھاہے، ہم ایچ ای سی کی شرائط پوری کررہے ہیں جسکے بعد اسی سال سے داخلے شروع کرینگے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here