ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
1990 میں جب میں امریکہ آیا تھا، میرے ذہن میں تھا کہ یہاں ہمارے ہم وطن بڑے ویل آف ہونگے۔ ہر دوسرا پاکستانی عبدالستار ایدھی یا حاتم طائی کا اسٹیٹس رکھتا ہوگا۔ اس میں کسی حد تک صداقت بھی تھی کہ نارتھ امریکہ میں ایسے لوگ کم نہ تھے، جنہوں نے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کی۔ کینسر زدہ کے علاج کرائے، بیماروں کو دوائیاں بھیجیں۔ آنکھوں کے فری آپریشن کئے، سیلاب زدگان اور زلزلہ زدگان کی مدد کی، بیوگان کی مدد کی، غریب بچیوں کے ہاتھ پیلے کئے۔ غریب الوطنی میں مرنے والوں کے کفن دفن سے لے کر پاکستان میتیں بھجوانے تک میں مدد کی، فیونرل ہوم سے لے کر قبروں کی قیمت کی ادائیگی تک میں مدد کی تاہم ہمارے ہم وطنوں اور دیگر امیگریشن کی اکثریت امریکہ پربوجھ ہے، دیر سے جاگنا، دیر سے سونا، کام پرجانے میں سُستی کرنا، پڑھائی نہ کرنا، وقت پر نہ پہنچنا، گھنٹوں فضول گپیں لگانا، تعلیم و ٹیکنالوجی نہ سیکھنا۔ معاشرے کا عضوِ معطل بن کر رہنا۔ اپنے عزیزوں سے رابطہ منقطع کر لینا۔ نئے آنے والوں کی مدد نہ کرنا۔ قرض لے کر ہڑپ کر جانا، ایک دوسرے کےخلاف شکائیتیں کرنا، بغیر محنت کے چھت پھاڑ کے رزق دینے پر تقدیر کو مجبور کرنے کی کوشش کرنا۔ سحر خیزی کی بجائے کاہلی، سُستی اور بے کاری سے محبت کرنا۔ خود ساختہ ڈیپریشن کا شکار ہونا، خود ساختہ مریض بننا، تقدیر کے گلے شکوے کرنا، رشتہ داروں پر بوجھ بن جانا وغیرہ۔ جیسے ہزاروں عیب ہیں۔ جن کے ہم حامل ہی نہیں ہیں بلکہ پروموٹر بھی ہیں اگر کسی کے کپڑے، گاڑی، مکان یا پرفارمنس اچھی دیکھ لی تو بجائے اس پر رشک کرنے کے پہلے حسد کیا پھر ادھار مانگنے چل پڑے۔ پھر تکلیفیں دینے چل نکلے وغیرہ وغیرہ۔ پھر شکایت بازی کی۔ امریکہ پر بوجھ کی مثالیں ملاحظہ ہوں! 22 سال سے ایک صاحب کو میں دیکھ رہا ہوں، گاڑیاں بدل بدل کر وہ مساجد و مراکز و مدارس میں نظر آتے ہیں، اس پورے عرصے میں وہ شرٹ نہیں بدل سکے۔ جب بھی ان سے پوچھا کہ کیا کام کرتے ہیں؟ تو فرماتے ہیں CV دے رکھی ہے۔ میں نے کہا مجھے بھی Resume ارسال کر دیں۔ میں ان کے Resume دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ کسی سطر کی اسپیلنگ ٹھیک نہیںہیں۔ کون سے کالجز ہیں؟ جنہوں نے انہیں ڈگریاں جاری کر دی ہیں، کن اسکولز کے یہ گریجویٹ ہیں، ایک اور صاحب جو سالانہ ہم سے قرض مانگنے آجاتے ہیں جنہوں نے کبھی قرض واپس ہی نہیں کیا، ان کا نمبر اسی روز بدلتا ہے جس دن ان کی قرض کی واپسی کی تاریخ ہوتی ہے ایک صاحب جو 15 سال سے امریکہ میں مقیم ہیں وہ چند روز قبل حصول روزگار کیلئے میرے پاس آئے۔ میں نے ان کے روزگار کا اہتمام کیا انہیں اپنے پاس سے پیسے دےئے کہ فلاں شہر چلے جاﺅ وہ کسی اور بس میں بیٹھ گئے۔ دھکے کھاتے ایک ہفتہ کے بعد میرے پاس پہنچے کہ وہ شہر تو ملا ہی نہیں ہے۔۔۔جاری ہے!!
15 سال میں انہوں نے کیا سیکھا؟ جنہوں نے 1980ءسے ٹیکسیاں چلانی شروع کیں، مجال ہے کہ انہوں نے بھی اپنی کمپنی کھولی ہو کہ روزگار میں تجارت کے ذریعے حبیب کبریا آقائے نامدار حضرت محمدﷺ کی سنت پر چلیں مگر چند ایک جو آٹے میں نمک ہیں، رشید چودھری، علی نقی سید اور احتشام عابدی جیسے چند لوگ ہیں جو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوئے اور انہوں نے اپنے ملک و قوم کا نام روشن کیا۔ اللہ ہمارے تمام بھائی بہنوں کو ایسے ہی کامیاب و کامران کرے اور کاہلوں کو ہدایت فرمائے۔
ایک صاحب جو 30 سال سے امریکہ میں ہیں ایک فون نمبر اپنے فون میں فیڈ نہیں کر سکتے، اب تک انہوں نے یہ سیکھا ہی نہیں نہ انہیں Save کرنا آتا ہے، ایک صاحب نے رات کو مجھے ایک بجے کال کی اور پوچھا کہ مولانا مجھے میرے گھر کی ایگزٹ بتا دیں جو اپنے گھر کی ایگزٹ یاد نہیں رکھ سکتے ۔انہوں نے امریکہ میں آکر کیا سیکھا ہے؟
ایک صاحب جو کم و بیش عمر امریکہ میں گزار چکے ہیں، وہ اب تک شہریت حاصل نہیں کر سکے۔ اس لئے کہ انہیں انگلش نہیں آتی، ایک بہن 82 سال کی ہوگئیں آج تک وہ سوشل سیکیورٹی نہیں لے سکیں کہ انہیں بتایا ہی نہیں گیا کہ ان کی کچھ مدد ہو سکتی ہے نہ انہوں نے پوچھنے کی زحمت ہی فرمائی۔ اکثر و بیشتر ہم وطنوں کے پاس کبھی قلم نہیں ہوگا۔ کسی کا فون نمبر انہیں دے دیں دو چار ہفتے کے بعد پوچھیں گے کہ وہ نمبر کیا تھا؟
کسی ٹشو پیپر پر لکھا تھا وہ بھول گیا ہے ویسے بھائی کے پاس فون نمبر نہیں ہے۔ بہن کے پاس بہن کا فون نمبر نہیں ہے اخبار پکڑا دیں تو پڑھیں گے نہیں، کتاب دے دیں تو گاڑی کے بونٹ پر یا مسجد کے کاﺅنٹر پر بھول آئیں گے۔ ایک صاحب ہمارے پاس دور ریاست سے آئے انہوں نے ہم سے وقت لیا، ان کی ریاست میں ہم گئے ہوئے تھے دو دن بعد صاحب بہادر کی کال آئی کہ فون گھر پر بھول گئے تھے اکثر کے میل باکس فل ہیں، ان کے پاس پیغام سننے کا وقت نہیں ہے کچھ لوگ جنہیں شاعری کا شوق ہے۔ انہوں نے کبھی شاعری سیکھی نہیں اردو بولیں گے، سیکھیں گے نہیں، انگریزی بولنے کا شوق تک ہے سیکھیں گے نہیں۔
مکان کی قسط سے لے کر گاڑی تک، کریڈٹ کارڈ کے بل سے لے کربجلی تک۔ مسجد کی ممبر شپ سے لے کر فون بلز تک کون سا بل ہے جس کی ادائیگی میںتاخیر نہیں ہوتی۔ اکثر کے کریڈٹ خراب ہیں۔ بہت سارے لوگ بسوں، ٹرینوں میں صرف اس لئے دھکے کھا رہے ہیں کہ ڈرائیونگ سیکھنے کی زحمت نہیں فرمائی ہے۔ ڈگریاں لیں نہ سرٹیفیکیٹ۔
ایک بھائی جو لگ بھگ 25 سال پہلے امریکہ آئے تھے وہ مجھے کل بھی سر راہ مل گئے تھے 22 سال سے میں نے انہیں کبھی استری شدہ کپڑے پہنے نہیں دیکھا ہے۔ جس ملک میں بل گیٹس جیسے تاجر رہتے ہیں جو مزدوری سے تجارت پر پہنچے، جس ملک میں زیرو سے ہیرو بننے کی مثالیں جا بجا بکھری ہوں۔ وہاں ہجرت کرنا اور ذہن کو اپنے گاﺅں سے نہ نکالنا، یہ کہاں کا انصاف ہے؟
گاڑیاں ہیں، دھلوائی نہیں جا رہی ہیں۔ گھر ہیں صاف نہیں کئے جا رہے۔ جوتے ہیں صاف نہیں ہو رے۔ بال ہیں کٹوائے نہیں جا رہے۔ وقت ہے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے، صلاحیت ہے بروئے کار نہیں آرہی ہے، بہت سارے بہن بھائیوں نے کمپیوٹر چلانا ہی نہیں سیکھا ہے، ان کے پیغام کی انگلش سن کر غصہ آجاتا ہے۔
قارئین! اس پر تو مجھے کتاب لکھنی چاہیے تاہم میں نے بالکل چند ضروری مثالیں رقم کی ہیں۔ کسی پر اگر کوئی مثال فٹ آئے تو اسے محض اتفاق سمجھا جائے۔ خدانخواستہ ہدف کسی پر تنقید نہیں۔ اپنی اصلاح اور ہم وطنوں کی خدمت ہدف ہے۔ میں ان مزدوروں کو سلام بھی کرتا ہوں جو مزدوریاں کر کے اپنے بچوں کو اعلیٰ عہدوں پر پہنچا رہے ہیں،اللہ میری قوم کو امریکہ پر بوجھ بننے کی بجائے دنیا کیلئے رول ماڈل بنائے۔