شرم وحیا کا فقدان!!!

0
146
انصار الرحمن
انصار الرحمن

انصار الرحمن

انسانی زندگی کا حسن اس وقت دوبالا ہو جاتا ہے جب شرم وحیا کو ہر لمحہ زندگی کے لمحات میں پروقار طریقہ سے اپنایا جائے گا۔ وہ انسانی معاشرہ جہاں ہر فرد ایک دوسرے کا خیال رکھتا ہو عزت اور احترام سے پیش آتا ہو ، شرم وحیا کو کبھی بھی فراموش نہیں کرتا ہو ، دیکھنے والوں کے لیے اور سننے والوں کے لیے کس قدر خوشی اور سکون کا باعث ہوتا ہوگا۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جو دنیا کے آغاز سے لے کر ہمیشہ ہر قوم اور ہر ملک کے افراد کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ رب العلمین نے پیغمبروں کے ذریعہ دیں اور آسمانی کتابوں میں ہمیشہ ان کو امتیاز قرار دیا۔ قرآن شریف کی سورہ قصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کیا ہے اور بتلایا ہے کہ مصر سے تھوڑے فاصلہ پر شہر مدین پہنچے تو ان کا گزر ایسے علاقہ سے ہوا جہاں ایک کنویں پر لوگ پانی بھرتے ہوئے نظر آئے۔ وہ بھی وہیں جا پہنچے۔ انہوں نے دیکھا کہ لوگ کنویں سے پانی کھینچ کر اپنی ضروریات پوری کررہے ہیں اور اپنی بکریوں کو بھی پانی پلا رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف دو لڑکیاں کھڑی ہوئی ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ ان کی باری آئے تو وہ اپنی بکریوں کے لیے پانی لے لیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانی کھینچ کر ان کو دیا کہ وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ وہ دونوں بہنیں گھر پہنچیں تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے جو حضرت شعیب علیہ السلام پیغمبر تھے تذکرہ کیا اور بتلایا کہ کنویں پر ایک بھلا شخص موجود تھا جس نے ہماری مدد کی تھی۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے ان سے کہا کہ تم پھر کنویں پر جاﺅ اور اس بھلے شخص سے کہنا کہ وہ یہاں آکر ہم سے ملاقات کرلے تاکہ ہم اس کا شکریہ ادا کردیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان دونوں میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی آرہی ہے۔ اس نے ان سے کہا کہ آپ میرے ساتھ گھر چلیں ہمارے ابا جان آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں اور آپ نے پانی کھینچ کر ہمیں دے کر جو مہربانی کی ہے اسکا معاوضہ آپ کو ادا کردیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے گھر پہنچے۔ ان کے ابا جان سے ملاقات ہوئی ، وہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔ انہوں نے ان کا شکریہ ادا کیا اورمعاوضہ دینے کو کہا۔ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کہنے لگی کہ ابا جان یہ بھلے آدمی ہیں آپ ان کو اپنے ہاں کام پر لگا لیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا میں اپنی ایک بیٹی کی شادی تم سے کرنا چاہتا ہوں اگر تم میرے دامام بن جاﺅ تو یہ اچھا ہوگا۔ تمہارا مہر یہ ہوگا کہ آٹھ سال کے لیے تم میرے ہاں کام کرو۔ اگر دس سال کام کرو تو یہ زیادہ اچھا ہوگا۔ یہاں سے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی اہلیہ کے ساتھ روانہ ہوئے تو آگے ایک جگہ ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔ ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں تو اکثر وبیشتر علاقوں میں شرم وحیا اور غیرت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان خوبیوں کا تذکرہ اللہ تبارک وتعالیٰ ، رب العلمین نے اپنی کتاب قرآن شریف میں کیا ہے جو قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے ہدایت کا سبق ہے۔ (جاری ہے)
آج کو نسا گھر ہوگا جہاں ٹیلی ویژن موجود نہیں ہے۔ ایک ایک ٹیلی ویژن پر کئی کئی چینل کے پروگرام دکھائی دیتے ہیں لیکن وہاں ہوتا کیا ہے اکثر ٹی وی اینکر شرم وحیاسے دور بے حیائی اور بے شرمی کی مشعل نظر آتے ہیں۔ خواتین کے بال کٹے ہوئے ہوتے ہیں یا پھر کندھوں پر پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور دور دور ڈوپٹوں کا نام نہیں ہوتا۔ اسکے علاوہ جو گفتگوو ہ اپنے ساتھی اینکروں سے کرتی ہیں اس کو کیا نام دیا جائے۔ خاص طور پر رمضان شریف کے مبارک دنوں میں تحفے تحائف دینے کے جو پروگرام ہوتے ہیں ، ان کو دیکھتے ہوئے لا حول ولا قوة پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔ آج کل دنیا کے اکثروبیشتر ممالک اور خاص طور پر پاکستان میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت کے نزدیک امریکہ ساری خوبیوں اور بھلائیوں کا مرکز ہے۔ جائز اور اکثر ناجائز ذرائع سے لوگ امریکہ پہنچے اور وہاں رہنے کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہیں۔ امریکہ میں کیا کچھ ہو رہا ہے ذرا اسکی تفصیل بھی سن لیجیے۔ کئی ریاستوں میں مردوں کی شادی مردوں سے ہوتی ہے اور کئی ریاستوں میں عورتوں کی شادی عورتوں سے ہوتی ہے۔ شرم وحیا اور غیرت کا جنازہ اور کہاں سے نکلے گا۔ یہاں پولیس کے قوانین کا بڑا زور ہے اور اس پر پوری طرح عمل بھی ہوتا ہے لیکن فیملی لائف کہیں بھی نہیں ہے۔ جب چاہا چھوڑ دیا ، جب چاہا الگ ہو گئے۔ اکثر وبیشتر مسجدوں میں اعلان ہوتے ہوئے سنا ہے کہ چھوٹے بچے ہیں ان کو اگر کوئی گود لیناچاہے تو بتلائے۔ بوڑھے والدین ساتھ نہیں رہتے ہیں ان کے لیے اولڈ سٹیزن ہاﺅس ہیں۔ یہاں ہر ایک کے لیے دن مخصوص ہے۔ فادر ڈے ، مدر ڈے وغیرہ ، سال میں ایک مرتبہ کارڈ بھیج دیا اور بس سارے حقوق ادا ہو گئے۔ دوسری طرف اسلامی تعلیمات پر نظر ڈالیں۔ قرآن شریف میں حکم دیا جارہا ہے کہ آپ کے رب نے حکم دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت مت کیا کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاﺅ کیا کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں تک مت کہو اورنہ ان کو جھڑکو اور ان سے بڑے ادب سے بات کیا کرو او ران کے ساتھ شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہا کرو اور یوں دعا کرتے رہا کرو اے میرے رب تو ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں (ایسی شفقت سے ) پالا ہے۔ جو ناجائز ذرائع سے پہنچتے ہیں وہ پکڑ لیے جاتے ہیں۔ جیلوں میں ڈال دئیے جاتے ہیں ، پھر ڈی پورٹ کردئیے جاتے ہیں۔ ویزا لے کر آنے والے اکثر لوگ کرسچین لڑکیوں سے شادی کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اہل کتاب ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ وہ اہل کتاب نہیں ہوتیں ، مشرک ہوتی ہیں جن عبادت کردوں ، چرچوں میں جاکر وہ شادی کرتے ہیں اس پر تثلیث کا نشان بنا ہوا ہوتا ہے۔ وہاں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بیوی حضرت مریم ہیں اور حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں جب تک چاہتے ہیں ساتھ رہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں الگ ہو جاتے ہیں۔ یہ بات بہت عام ہے۔ چند سال قبل ایک خاتون ہم سے ملاقات کے لیے آئیں۔ انہوں نے اپنی مشکلات اور پریشانیوں کا تذکرہ کیا۔ ہم نے ان کی رہنمائی کی اور قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کا حل بتلا دیا۔ گفتگو کے دوران ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ان کے شوہر کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں ، وہ کہنے لگیں کہ وہ اولڈ سٹی زن ہاﺅس میں رہتے ہیں۔ وہ اکثر وبیشتر بیمار رہنے لگے تھے اور پھر ان کے ساتھ ان کی بنتی نہیں تھی ، اکثر جھگڑا ہوتا تھا اس لیے ان کو وہاں پہنچا دیا ہے۔ ہم نے دریافت کیا کہ کبھی ملنے بھی جاتی ہو کہنے لگیں کہ نہیں۔ ہم نے کہا کہ یہ بڑی بے شرمی کی بات ہے جب تک وہ جوان رہا ، تمہارے لئے اسکی اہمیت تھی اسی سے چمٹی رہتی تھیں اب اسکو وہاں پہنچا دیا ہے۔ کبھی کبھی اس سے مل لیا کرو ، چند دن کے بعد انہوں نے فون کیا اور کہا کہ اس سے ملنے گئی وہ بہت خوش ہوا ، بعض خواتین سکھوں سے شادی کرلیتے ہیں اور ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ کیا کچھ کررہی ہیں۔ پہلے اگر کسی لڑکی کو طلاق ہوجاتی تھی تو ماتم ہونے لگتا تھا کہ یہ کیا ہوگا۔ آج کل ان باتو ںکی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ، کسی بھی بات پر ناراضگی ہوئی تو ساتھ چھوڑ دیا۔ لڑکیاں خو دکہتی ہیں کہ ہمیں طلاق دے دو ، ڈائی وورس دے دو۔ اس کا اثر ان کی اولاد پر کیا ہوگا وہ کبھی سوچتی ہی نہیں ، ڈائی وورس کیس یہاں کی عدالتوں میں عام طور پر چلتے ہیں اور عام طور پر اسکا فیصلہ لڑکی کے حق میں ہو جاتا ہے۔ یہاں ڈاکوﺅں کی آمدنیاں ہیں یا وکیلوں کی۔ نئی آنے والوں کو اچھی جاب بہت مشکل سے ملتی ہے۔ ان کے لیے اچھا تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہونا لازمی ہوتا ہے۔ دوسرے لوگوں کو عام طور پر پٹرول پمپوں پر کام کرنے کی جاب مل جاتی ہے یا چوکیداری کی نوکری جسکو بڑے فخر کہا جاتا ہے کہ سکیورٹی کی جاب ہے۔ اگر خاتون کا کوئی بچہ بھی ہے تو اسکے لیے عدالت ماہانہ الاﺅنس مقرر کردیتی ہے جو اسکے باپ کو دینا پڑتا ہے اسکے علاوہ اسکے بنک اکاﺅنٹ اور پراپرٹی کے آدھے حصے کی محترمہ مالک بن جاتی ہیں وہ والدین جو پاکستان جاکر اپنی اولاد کا رشتہ کرتے ہیں ذرا سوچ سمجھ کر کیا کریں۔ اکثر وبیشتر ایسا ہوا ہے کہ پاکستان سے امریکہ یا کینیڈا آنے والی لڑکی نے یہاں کے حالات دیکھے ، کہیں جاب کرلی، چند سال گزرے کسی بات پر ناراضگی ہوئی ، ان بن ہوئی تو اس نے ڈائی وورس کیس فائل کردیا۔ اسلئے جو کچھ بھی کریں بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ پاکستان میں رہنے والوں کے حالات بھی ذرا مختلف ہو گئے ہیں ، پہلے جیسے نہیں رہے۔ اکثر لوگوں کی ذہنیت تبدیل ہوچکی ہے۔ آخر میں اپنے بہن اور بھائیوں سے ایک گزارش کرنی ہے وہ یہ کہ ان کے جو دوست احباب رشتہ دار یا پڑوس اس دنیا سے جاچکے ہیں ، جن کا انتقال ہوچکا ہے ، وفات پاچکے ہیں ، ان کے لیے روزانہ ایصال ثواب کردیا کردیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ قرآن شریف کی سورتیں یا آیتیں ان کو یاد ہوں تو بار بار پڑھیں اور اسکا ثواب ان کو بخش دیا کریں۔ اس کام کے لیے ان کو وضو کرنے اور قرآن شریف کھولنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جن کو قرآن شریف کی سورت یا آیتیں یاد نہ ہوں بار بار سبحان اللہ ، الحمدللہ، اللہ اکبر پڑھ کراسکا ثواب ان کو بخش دیا کریں۔ اگر کہیں جانا ہو تو گاڑی میں فلمی گانے چلانے اور اسکو سننے کے بجائے قرآن شریف کی تلاوت کے کیسٹ لگا کر سنیں تو بہت اچھا ہوگا۔ آخر میں ایک اور درخواست ہے وہ یہ کہ ہماری کتاب سکون اور صحت کا مطالعہ ضرور کریں ، اس سے ان کی معلومات میں بہت اضافہ ہو گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here