اسلامی نہیں محدود غیر سودی بینکاری

0
372
اوریا مقبول جان

اوریا مقبول جان
انگلینڈ کی حکومت نے سب سے پہلے 1931ءمیں کاغذی کرنسی کا اجراءکیالیکن یہ کساد بازاری کا زمانہ تھا، لوگ گھبرا کر بینکوں سے ان کاغذوں کے بدلے سونا طلب کرنے لگے تو حکومت نے نوٹوں کے بدلے سونے کی ادائیگی کا نظام ہی ختم کردیا۔ امریکہ نے 1933ءمیں کاغذی نوٹوں کا اجراءکیا لیکن ساتھ یہ بھی قانون بنایا دیا کہ کاغذی کرنسی کا کم از کم چالیس فیصد بینک سونے کی صورت رکھیں گے۔ فرانس نے بھی 1933ءمیں چالیس فیصد سونا بینکوں میں رکھنا لازمی قرار دے دیا۔ اس کاغذی کرنسی کو زبردستی نافذ کرنے کے لیے تادیبی قوانین جاری کیے گئے۔ اپریل 1933 میں امریکہ میں سونے کے سکے، اسکی خام شکل یا سونے کے سرٹیفکیٹ رکھنا جرم قرار دے دیا اور سونے کے سکوں کی قانونی حیثیت ختم کرکے لوگوں کو لین دین سے روک دیا گیا۔ ایک حکم جاری کیا گیا کہ اگر فلاں تاریخ کے بعد کسی کے پاس سونے کے سکے نظر ا?ئے تو اسے دس ہزار ڈالر جرمانہ کیا جائے گا اور چھ ماہ کی سزا بھی ہوگی۔ امریکی فیڈرل ریزرو بینک نے ایک اونس سونے کے عوض بیس ڈالر کا نوٹ تبدیلی کے لیے مقرر کیا۔ قید اور جرمانے کی سزا اور سونا چھن جانے کے خوف کے تحت عوام بینکوں کی طرف دوڑے اور اپنے سونے کے عوض کاغذی ڈالر لینے لگے۔ جنوری 1934ئ میں جب امریکی حکومت کو یقین ہو گیا کہ لوگوں کا تمام سونا ڈالروں میں تبدیل ہوگیا ہے تو وہ کام کیا گیا جو آجکل دوسرے ملکوں کی معیشتوں کو ڈبونے کے لیے کیا جاتا ہے،یعنی امریکہ نے اپنے کاغذی ڈالر کی قیمت میں اکتالیس فیصد کمی کردی۔ لوگ فورا سونا حاصل کرنے کے لیے بینکوں کو دوڑے مگر جو سونا وہ بیس ڈالر فی اونس بیچ کر آئے تھے اب اس کی قیمت 35 ڈالر ہو چکی تھی۔ ظاہر بات ہے فی اونس 15 ڈالر کا نقصان کون برداشت کرسکتا تھا۔ لوگ خاموشی سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن ایسا کرنے سے حکومت امیر نہ ہوئی بلکہ سودخور بینکاروں کے پیٹ دولت کے انبار سے پھول گئے۔ کرنسی کی قیمت گرانے کا یہ دھندا اور لوٹ مار کا یہ کاروبار صرف امریکہ نہیں تمام معیشتوں میں دہرایا گیا۔ ستمبر 1931ءمیں برطانوی پاو¿نڈ کی قیمت 30 فیصد گرائی گئی اور پھر مسلسل گراتے ہوئے 41 فیصد تک لے گئے۔ سوئس فرانک کی قیمت 30 فیصد کم کی گئی اور یوں یورپ کے تمام ممالک نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ یونان اپنی کرنسی 59 فیصد تک نیچے لے گیا۔ لوگ جو سونا بینکوں کو دیکھ کر نوٹ لے چکے تھے، اب اگر وہ واپس لینے جاتے تو اتنا گھاٹا پڑتا جسے برداشت کرنا مشکل تھا۔ لوگ خاموشی سے انہی کاغذی نوٹوں کو جیبوں میں دبائے گھر لوٹ گئے۔ کرنسی کی قیمت کم کرنے کے پیچھے ایک بہت بڑی منصوبہ بندی تھی۔ یہ منطق دی گئی کہ اس طرح دوسرے ملکوں میں ہمارے مال کو لوگ زیادہ خریدیں گے اور ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگا اور حکومت کے پاس قرض اترنے کیلئے زیادہ سرمایہ ہو گیا۔ لیکن جب تمام ممالک ہی ایسا کرنے لگے تو پوری مغربی دنیا میں ایک بحران پیدا ہوگیا۔ کاغذ کے نوٹوں کی قدرومنزلت ردی کے ٹکڑوں جیسی ہو گئی۔قومی آمدنیوں میں اس قدر کمی آئی کہ مال کی مانگ ہی ختم ہوگئی، چاروں جانب بے روزگاری نے ڈیرے ڈال لئے اور پوری دنیا شدید خسارے کا شکار ہوگئی۔ یہ شدید خسارہ خودبخود پیدا نہیں ہوا بلکہ اسے اس لیے پیدا کیا گیا تاکہ ایک جدید عالمی سودی مالیاتی نظام کو زبردستی نافذ کیا جائے۔ اسی کساد بازاری اور شدید خسارے کے عالم میں دوسری عالمی جنگ ہوئی۔ بینکاروں نے جرمنی، فرانس برطانیہ اور اٹلی جیسے ملکوں کو خوب قرضے دیئے تاکہ وہ اسلحہ سازی کی فیکٹریاں بنائیں اور ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے لیے اسلحہ سازی کریں۔ جنگ ختم ہوئی۔ یورپ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گیا۔ قرضوں کا بوجھ اور تعمیر نو کی ذمہ داری، یہ تھا وہ عالم جب دنیا پر ایک نئے عالمی مالیاتی سودی نظام کو ٹھونسنے کا بہترین وقت تھا۔ یکم سے بائیس جولائی 1944ءتک چوالیس اتحادی ممالک کے 730 مندوب بریٹن ووڈ کے ماو¿نٹ واشنگٹن ہوٹل میں جمع ہوئے اور بائیس دن کی بحث و تمحیص کے بعد دنیا کے لیے ایک نیا عالمی مالیاتی نظام لایا گیا جس کے تحت تمام ممالک کے لئے کاغذ کے نوٹ لازمی قرار دے دیئے گئے۔ امریکہ نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس دنیا کا دو تہائی سونا ہے اس لئے تمام کاغذی کرنسیوں کو سونے یا امریکی ڈالر کے متبادل کے طور پر پرکھا جائے گا۔ پوری دنیا میں یہ عالمی مالیاتی سودی نظام نافذ العمل ہوگیا۔اس کی کوکھ سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے جنم لیا۔ اس نظام کے قیام کے ٹھیک ستائیس سال بعد 15 اگست 1971ءکو امریکہ نے اپنے طور پر ڈالر کے متبادل سونے کے قانون کو ختم کردیا۔ بریٹن ووڈ کا مالیاتی نظام ختم ہوا اور اب دنیا پر ایسی کرنسی کی حکومت چھا گئی جس کی بذات خود کوئی قیمت یعنی ”Intrinsic value” نہ تھی۔ اسے فیٹ (Fiat) کرنسی کہتے ہیں۔ یوں سولہویں صدی سے آہستہ آہستہ نافذ ہوتا ہوا یہ سودی نظام 1971ء میں اپنی اصل شکل میں واضح ہوگیا۔ یہ ہے وہ عالمی مالیاتی سودی سسٹم ہے جسکے تحت اس وقت دنیا کا تمام بینکاری کا نظام چلتا ہے اور اسی کی ایک معمولی کڑی یعنی قرض کا لین دین ہے جسے سود سے پاک کرنے کی کوشش کو اسلامی بینکنگ کہا جاتا ہے۔ یعنی اس سودی مندر کے ایک کونے کو کافور و عرق گلاب سے غسل دے کر پاک کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے جہاں مصلے ٰبچھایا جا سکے۔ یہ کاغذی جعلی کرنسی اگر سید الانبیاءکے زمانے میں ہوتی آپ کی کیا ہدایات ہوتیں چونکہ یہ دین رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے، اس لیے قرآن و حدیث میں اس کے بارے میں واضح احکام موجود ہیں۔ اسلام میں سرمایہ یا مال کیا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺنے صرف اس چیز کو مال کے طور پر استعمال کی اجازت دی ہے جس کی اپنی علیحدہ بھی ایک قیمت ہو۔ حضرت ابو سعید خذری سے روایت ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، کھجور کے بدلے کھجور اور نمک کے بدلے نمک۔ جب سودا ایک جیسی چیزوں کا ہو،ااور ادائیگی اسی وقت ہو، ایسے میں اگر کوئی زیادہ دے یا زیادہ مانگے تو انہوں نے رباء یعنی سود کا ارتکاب کیا۔ لینے اور دینے والے دونوں برابر کے قصوروار ہیں (صحیح مسلم)۔ یعنی رسول اکرم کی یہ حدیث سرمایہ یا دولت کے بارے میں وضاحت سے بتاتی ہے۔ اول یہ کہ سونا اور چاند ی جنہیں فقہ میں نقدین کہا جاتا ہے اور جن کی بازار میں اپنی علیحدہ قیمت ہے، دوسری وہ اشیاءجن کی اپنی ایک زندگی (Shelf life) ہوتی ہے جیسے کھجور، گندم،جو، وغیرہ۔ آپ نے ان متبادل اشیاءکو ایک سٹینڈر کے طور پر استعمال کا طریقہ کار بھی بتایا ہے۔ ایک دن حضرت بلال حضوراقدس کی خدمت میں کچھ کچھ برنی کھجوریں لے کر آئے۔ جب حضور نے دریافت فرمایا کہ وہ یہ کھجوریں کہاں سے لے کر آئے تو حضرت بلال نے جواب میں کہا ” میرے پاس اس سے کم درجے کی کھجوریں تھیں جس کے دو صائع دے کر میں نے ایک صائع لے لیا۔ آپ نے فرمایا یہی تو رباء (سود) کی اصل ہے اس میں مت پڑو۔ جب تم ایسا کرنا چاہو تو پہلے الگ سے ان کھجوروں کو بیچو اور اس سے جو مال ملے اس سے دوسری خریدو (بخاری، مسلم)۔ جو شارح دین رسول معظم کھجور کو بحیثیت کرنسی استعمال کیلئے کہے اور پھر اس کو لین دین میں اسے خالص رکھنے کی تلقین کرے کہ اس کے تبادلے کو ربائ قرار دے وہ ربائی اور سود کی بنیاد کاغذی کرنسی پر کیسے راضی ہو سکتا تھا۔ آپ کے دور میں اگریہ کاغذ کی کرنسی ہوتی تو آپ کی پہلی جنگ اسی کے ساتھ ہوتی کیونکہ یہی تو سود کی بنیاد ہے۔جدید مالیاتی سودی نظام سے جنگ ہی دراصل وہ جنگ ہے جسے اللہ اور اسکے رسول کی جنگ کہا گیا ہے۔اس پورے سودی خیمے کو اکھاڑ پھینکنا مقصود ہے،اسکے کسی ایک رکن خواہ وہ بینکنگ کیوں نہ ہو، اسے مشرف بہ اسلام نہیں کیا جا سکتا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here