سندھ میں جعلی ڈومیسائل کا مسئلہ!!!

0
188
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

سندھ میں کچھ عرصہ سے جعلی ڈومیسائلز کا مسئلہ عروج پر ہے، سندھ کے نوجوانوں کو شکایت ہے کہ کالجوں خصوصاً میڈیکل کالجوں میں سندھ کے کوٹہ سے پنجاب کے طلباءسندھ کے مخصوص کردہ نشستوں پر داخلہ لے رہے ہیں اس سلسلے میں کچھ تنظیموں کی جانب سے سندھ ہائیکورت میں درخواستیں بھی د رج ہیں جن کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے ادھر کچھ تنظیموں کی طرف سے تحقیقاتی عمل بھی رواں دواں ہے اور نوجوان طبقہ اپنی حق تلفی پر نہایت غم و غصہ میں مبتلا ہے۔ پنجاب بھی پاکستان کا حصہ ہے اور وہاں بھی کئی میڈیکل کالجز ہیں جہاں پر بھی سندھ کا کوٹہ ہے اسی طرح سندھ کے میڈیکل کالجز میں پنجاب کی بھی نشستیں ہیں۔ لیکن پنجاب میں یہ ممکن نہیں کہ سندھی طالبہ یا طلباءپنجاب کا جعلی ڈومیسائل حاصل کر پائیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ افسر شاہی میں اکثریت پنجاب کے لوگوں کی ہے ظاہر ہے پنجاب آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے تین گنا سندھ سے بڑا ہے لیکن بد قسمتی سے ندھ کی وفاقی افسر شاہی میں تین چار فیصد نمائندگی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں کوشش کی تھی کہ وفاقی حکومت کی افسر شاہی میں براہ راست ترقی کے ذریعے سندھ کے لوگوں کو وفاق میں کسی حد تک نمائندگی دلوائی تھی لیکن ان افسران کی اکھاڑ پچھار کا سلسلہ ضیاءکے دور آغاز سے ہی شروع ہو گیا ان سندھی افسران کی زندگیاں ہی زہر کر دی گئیں آخر کار کچھ لوگ تو تنگ ہو کر مستعفی ہو گئے یا انہیں جبراً استعفی لے لئے گئے باقی اپنے تبادلے سندھ اور بلوچستان کرا کر اسلام آباد کو خیر باد کہہ گئے زرداری برانڈ پی پی پی نہ تو اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ ان کی حکومتوں نے تو انہیں کمزور سمجھ کر الٹے سیدھے کام لینے پر اسرار کیا جو نہیں مانے ان کےخلاف تحقیقات کروائی اور یا تو ان کی تنزلی کر دی گئی یا گھر بھیج دیئے گئے اس صورتحال نے احساس محرومی میں کس حد تک اضافہ کیا اور اب جعلی ڈومیسائل کے مسئلے نے بہت زیادہ ہلچل مچائی ہوئی ہے دوسرے صوبہ کے لوگوں کو علم نہیں لیکن سندھ میں یہ ایک حساس معاملہ کی نوعیت اختیار کر گیا ہے جلسے جلوسوں کے ذریعے احتجاجی سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے متحدہ قومی محاذ ایم کیو ایم نے بھی اس معاملے پر قومی و صوبائی اسمبلی میں قرارداد پیش کر دی ہے کہ جعلی ڈومیسائل کے مسئلے پر ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے تاکہ سندھ میں رہائش پذیر لوگوں کی حق تلفی کی روک تھام ہو پائے۔ا دھر سندھ حکومت نے بھی وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ اس مسئلہ پر غور کیا جائے۔
قارئین آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ یہ معاملہ تو سندھ حوکمت کا ہے تو وہ وفاقی حکومت کو کیوں مداخلت پر اُکسا رہی ہے لیکن سی ایس ایس یا سپیرئیر سروس کے افسران کی پوسٹنگ یعنی تبادلے اور تعیناتی کا فیصلہ وفاقی حکومت کرتی ہے کچھ ڈپٹی کمشنر صاحبان کو پنجاب سے سندھ اور کچھ کو سندھ سے پنجاب میں مقرر کیا جاتا ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ پنجاب میں جعلی ڈومیسائل نہیں ہوتے تو سندھ میں کیوں ہو جاتے ہیں گہرے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ پنجاب سے سندھ تبادلے ہونے والے افسران اپنے دفاتر کے عملہ کا ایک بڑا حصہ اپنے علاقوں پنجاب کے اضلاع سے لے کر آتے ہیں جبکہ سندھ سے تبدیل ہو کر پنجاب جانے والے ڈی سی صاحبان اکیلے ہی پنجاب جاتے ہیں اس حد تک کہ اپنے خاندان کو بھی ساتھ نہیں لے جاتے تو ماتحت عملہ کہاں سے لے کر جائیں گے۔ بظاہر یہ ایک نہایت چھوٹا مسئلہ ہے لیکن گہرائی سیکھا جائے تو یہ ڈومیسائل کا مسئلہ سندھ کے تعلیم یافتہ نوجوان کا ایک بڑا معاشی مسئلہ ہے، روزگار کا مسئلہ، پیٹ کا مسئلہ ہے تو یہاں ماتحت عملہ کی بات کر رہے تھے ڈپٹی کمشنر اکیلا آج کے دور میں کوئی غیر قانونی کام نہیں کر سکتا جب تک اس کی ٹیم بھی ساتھ نہیں ہو۔ مثال کے طور پر پچھلے دنوں سکھر کے قریب پنجاب کی سرحد سے منسلک سندھ کے ضلع کا چرچہ ہونے لگا کہ یہاں سے لا تعداد جعلی ڈومیسائل جاری ہوئے ہیں معلوم کرنے پر پتہ لگا کہ ڈپٹی کمشنر پننجاب سے گھوٹکی ضلع کے سربراہ ہیں اسسٹنٹ کمشنر کا تعلق بھی وہیں سے ہے حد یہ ہے کہ جونیئر کلرک بھی پنجاب سے درآمد کر کے لائے ہیں اور اسی دفتر سے سندھ میں پکڑے جانےو الے جعلی ڈومیسائل کی بڑی تعداد جاری ہوئی ہے میڈیکل کالج کا داخلہ، دوسرے بڑے اداروں میں داخلہ CSS کے امتحان میں شمولیت تک جعلی ڈومیسائلسے ہوئی ہے اب یہ معاملہ دور تک جائیگا اور حل طلب ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here