کوثر جاوید
بیورو چیف واشنگٹن
امریکہ میں ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے،2016میں موجودہ صدر ٹرمپ منتخب ہوئے۔پاپولر موومنٹ کی اکثریت نے ووٹ ڈیموکریٹکس ہیلری کلنٹن کو د یئے لیکن الیکٹورل ووٹ کی اکثریت صدر ٹرمپ کو کئی صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم میں جتنے وعدے اپنی قوم سے کئے تقریباً پورے کئے جن میں بیرونی ممالک سے امریکی فوجوں کی واپسی امیگریشن میں سختی میکسکو بارڈر پر دیوار کی تعمیر امریکی جانبر امریکہ میں واپسی ان چار سالوں میں اتار چڑھاﺅ کے ساتھ صدر ٹرمپ اکانومی کو کسی حد تک ٹریک میں رکھنے میں کامیاب میں کروں۔وائرس جس نے یو ای کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکہ میں سب سے متاثرین ہیں۔اور کرونا اموات بھی سب سے زیادہ ہوئیں کرونا کرائسز کے دوران صدر ٹرمپ نے حسب انداز میں امریکی عوام کی مالی مدد کی اور پورے امریکہ میں فوڈ سپلائینر اور میڈیکل سپلائینر کی جاری رکھا ہو کسی موکے سے کم نہیں اپریل کے پہلے ویک کروڑوں امریکی شہریوں کو آٹھ سو ڈالر پر ہفتہ اکاﺅنٹس میں جارہا ہے جب سے امریکی شہریوں کے گھر کا نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔1200ڈالر کے علاوہ ہر ہفتے رقم کے ساتھ دوبارہ1200ڈالر فی کس دینے کی تیاریاں میں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود صدر ٹرمپ نے امریکہ میں نوکریاں بھی زیادہ کیں اور اکانومی کو چلاتے چلاتے یہاں تک لے آئے اب گزشتہ ماہ سیاہ فام کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد امریکہ بھر پرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے جو پرامن ہوگئے بظاہر یہی لگتا تھا کہ ہر مظاہرے صدر ٹرمپ کی آئندہ شکست کا باعث بن سکتے ہیں۔لیکن مظاہروں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ کرمنل جسٹس اور پولیس قوانین می اصلاحات کا صدارتی حکم نامہ جاری کرکے معاملہ بھی حل کے قریب کر لیا ہے۔گزشتہ انتخابات میں95فیصد پاکستانی کمیونٹی نے صدر ٹرمپ کی مخالفت کی اور ہیلری کلنٹن کو ووٹ دیے پاکستانی کمیونٹی کے کاروباری حضرات اور رہنما اپنے کاروباری اور ووٹرز کے بل بوتے پر بغیر کسی منصوبہ بندی کے میدان میں اتر چکے ہیں۔2016جو پاکستانی دونوں پارٹیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی خضر خاں اور ساجد تارڑ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی امریکہ کس حکمت عملی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔موجودہ حالات میں بھی ایک بڑی پاکستانی تعداد ڈیموکریٹک کی اندھا دھند تقلید میں موضوع اور اپنے اپنے ذاتی ایجنڈے ساتھ ایک دوسرے پاکستانی کو بیچنے کے چکروں میں ہیں۔کوئی مشترکہ حکمت عملی دکھائی نہیں دے رہی جو بھی پاکستانی متحرک ہیں ان کے اپنے اپنے ذاتی ایجنڈے ہیں جن سے باہر اس وقت سیاہ فام کمیونٹی امریکی مسلمانوں کی طرف دیکھ رہی ہے میکسیکو دیوار اور امیگریشن سختی کی حصہ سے لاطینی کمیونٹی صدر ٹرمپ کے خلاف ہے۔اس وقت پاکستانی کاروباری حضرات اور سیاسی رہنماﺅں جو بھی ڈیموکریٹک پارٹی ریپبلکن کے ساتھ ہیں مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ سیاسی مشیروں کو میں ہماری نسلیں آگئیں ہیں اور یہاں کے سسٹم سے خوب فائدہ اٹھا کر اچھی تعلیم حاصل کرکے اچھے اچھے شعبوں میں بھاری جوکہ تنخواﺅں پر کام کر رہے ہیں۔ان نوجوانوں کو ساتھ ملا کر دونوں پارٹیوں میں نمائندگی کی وقت کی اہم ضرورت ہے۔جسے ہم پاکستانی امریکہ موقع کی دنیا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اس کی بہتری اور ترقی کے لئے ضرور جدوجہد کرنا چاہیے آئندہ نومبر میں صدارتی انتخابات میں اور پاکستانی دونوں پارٹیوں میں مشترکہ حکمت عملی سے لائحہ عمل تیار کرکے ووٹ اور فنڈز کا درست سمت میں استعمال سے امریکی پاکستانی نہ صرف سیاہ امریکہ اس کے ساتھ پاکستان کی بہتری کے لئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔صدر ٹرمپ کی کارکردگی ان چار سالوں میں بری نہیں ہے تاہم ان کے دوبارہ صدر بننے کے چانسز موجود ہیں لیکن ووٹ اور فنڈز کے استعمال کی ضرورت ہے ، پاکستانیوں کوسمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا پڑا۔