مجیب ایس لودھی، نیویارک
آج جس طرح جھوٹی خبروں کو مصالحے لگا کر سوشل میڈیا پر ہاتھوں ہاتھ بیچا جا رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیںہے ،دن،رات ریٹنگ اورلائیکس بڑھانے کے لیے جانے کیا کیا جتن کیے جا رہے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اس سوشل میڈیا کو معاشرتی اور سماجی اصلاح کیلئے استعمال کیا جائے ، بچوں ، نوجوانوں کو اخلاقیات کا درس دیا جائے تاکہ وہ راہ حقیقی کی طرف اپنے سفر کا آغاز کریں ۔ دنیا جب سے وجود میں آئی ہے ترقی و تبدیلی کا عمل جاری ہے ،وقت کے ساتھ معاشرتی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں ، ایک وقت تھا کہ سائیکل کی ایجاد سے دنیا خوش تھی ،آج دنیا بھر میں تیز سے تیز ترجہاز ، راکٹ کی رفتار میں برابراضافہ ہو رہا ہے ،ہر دور میں جب بھی نئی ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے ، دنیا میں اس کا غلط استعمال بھی ہوا ہے ، ایک وقت تھا جب ہمLIVEپروگرامز کیلئے ہزاروں ڈالر خرچ کرتے تھے ، مجھے یاد ہے کہ جب میں پاکستان ڈے پریڈ میں تھا تو ہم 25ہزار سے زائد ڈالر خرچ کر کے نیویارک کی پریڈ پاکستان سمیت دنیا بھر میںلائیو دکھاتے تھے جبکہ آج سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنے فون سے ایک سکینڈ میں ایسا کر سکتا ہے ، سوشل میڈیا کی بے حد خوبیاں بھی ہیں تو خامیاں بھی ساتھ ساتھ ہیں اکثر لوگ دن رات سوشل میڈیا پر ہوتے ہیں اپنی اہمیت و قابلیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے ادھر کی چیز اُدھر ڈالتے نظر آتے ہیں ، اکثر لوگ بغیر تصدیق کی ہوئی خبر کو آگے بڑھا دیتے ہیں جس سے اصل و غلط خبر کو جانچنے کا فقدان نظر آتا ہے ، سوشل میڈیا نے ہمار ے کلچر کو شدید نقصان پہنچایا ہے ، ادب و آداب کا خاتمہ نظر آتا ہے ،چھوٹے ،بڑے کی تمیز ختم ہو چکی ہے ، ایسی ایسی فضول اور کلچر سے گری چیزیں سامنے آتی ہیں جنہیں ہم عام حالات میں دیکھنا اور پڑھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے ، اچھی بات یہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں ہم کوئی بھی خبر یا مضمون یا کسی بھی اہم بات کو دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی کو بھی پہنچا سکتے ہیں اگر ہم سوشل میڈیا کا استعمال صرف مثبت رکھیں تو اس نئی ٹیکنالوجی کا ہم صحیح استعمال کر سکتے ہیں جن میں اخلاقیات اور دین کی اصلاحی چیزوں اور جدید علم سے ایک دوسرے کے علم میں اضافہ کرنا ہے ، ذاتیا ت کو ایک جانب رکھ کر اجتماعی اہمیت کو ترجیح دینا ، ذاتی اہمیت یا فائدہ مندی کو درگزر کر کے ملکی اہمیت یا دینی اہمیت کو ترجیح دینا ، سوشل میڈیا کے آنے سے سب سے زیادہ نقصان ہمارے کلچر کو ہوا ہے ، آج کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ،ایک دوسرے کے احترام کا شدید فقدان ہے ،اکثر گھر وں میں بچوںکو معلوم نہیں کہ بڑوں کا احترام کیا ہوتا ہے کیونکہ آج کل کے بچے ہر گھر میں جو زبان استعمال کرتے ہیں ،وہ عام سی بات بن گئی ہے جس کی وجہ سے اچھے اور برُے کی تمیز کا فقدان ہے ، شادیاں سوشل میڈیا پر ہونا شروع بھی ہوتی ہیں اور پھر ختم بھی ہو جاتی ہیں ، کچھ ہی زمانہ قبل بزرگوں کے ذریعہ شادیاں ہوا کرتی تھیں ، ایک لحاظ ہوتا تھا ،خاندان ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے کے بعد بات پکی کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے اگر میاں بیوی میں معاملہ کچھ خراب بھی ہوتا تھا تو گھر کے بزرگ سمجھا دیا کرتے تھے ،آج کا زمانہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہی پسند شروع ہو جاتی ہے اور پھر کچھ عرصہ بعد سوشل میڈیا پر ہی پتہ چلتا ہے کہ شادی ختم ہوگئی ، اس افراتفری کے دور میں سوشل میڈیا نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں سوسائٹی کے کلچر کو شدید نقصان بھی پہنچایا ہے ، ہمیں چاہئے کہ اس بارے میں سب مل کر توجہ دیں تاکہ ہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچایا جا سکے ، اگر آج ہم نے ایسانہ سوچا تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا ، اس کا واحد حل اپنی اپنی فیملی کے ساتھ ہر ہفتے کچھ وقت گزارنے کا ہے ، اسے عادت کا حصہ بنا لیں،ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ بچوں کا والدین کی صحبت اور آنکھوں کے سامنے رہنا بہت ضروری ہے ، بچوں سے سماجی مسائل پر بات چیت کرنا ، ان کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا بہت ضروری ہو گیا ہے ،ورنہ بچے بے راہ روی کا شکار ہوکر ابتدائی زندگی سے ہی غلط راستے کی طرف چل نکلتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔
٭٭٭