افواج پاک کو گالیاں دینے والوراج ناتھ سے کچھ سیکھو!!!

0
271
سردار محمد نصراللہ

سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن!شہر لاہور میں بیٹھ کر جہاں گرمی کی شدت آج درجہ حرارت107ڈگری ہے۔ان کا کالم درج کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔چند دن ہوتے ہیں جب ملک میں ماہر معاشیات اور ٹی وی اینکرز نے حماد اظہر کی بجٹ تقریر پر آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔وجہ اس کی جمادی عسکری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بجٹ میں12.5فیصد مختص کیا ہے۔یہ چیخنے چلانے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کے قریب تر ہیںجس کی کوشش ہے کہ وہ اپنے بھارتی اور ان کے ہم نواﺅں سی آئی اے، ایم سیکس اور ”را“کو پیغام بھیجیں کہ آپ بھارت کو دیوار چین کے سامنے ایک لائن سے بھی بڑی دیوار بنا کر کھڑی کرنا چاہتے ہیںلیکن یہاں حکومت پاکستان اس کرونائی دور میں عوام کا پیٹ بھر رہے ہیں۔مجھے ان پیشہ وار ٹی وی اینکروں اور صحافت کے شہہ زوروں سے کوئی گلا نہیں ہے۔کہ ان کی جیبوں کا مسئلہ ہے اور مہنگائی بھی حد میں کراس کر چکی ہیں۔کہ شام مشروب پینے والوں کو بھی اس کی ضرورت پڑتی ہے۔اور ہر در بند ہونے کی وجہ سے قیمتیں دستر میں سے باہر ہیں۔مجھے اگر گلا ہے تو انٹرنیشنل سیاست کی منڈی میں بیٹھے ہوتے ان سوڈو دانشوروں سے ہے جو ہر جانتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے ساتھی بھارت کی پشت پناہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہے ہیںاور اس ماحول میں جب ہندوستانی چپقلش چین سے پٹائی کے باوجود پاکستان کی سرحدوں پر اپنی خونی واردات کرنے کی سعی کئے ہوئے ہیں۔اس مختص میں مجھے نیویارک میں آباد قائد تحریک عدلیہ رانا رمضان صاحب سے بڑا تکرہ ہے کہ انہوں نے اس نازک وقت پر جس طرح کسی توازی نوکر کے ساتھ مل کر جس طرح میری افواج پاکستان کی افواج بائیس کروڑ پاکستانیوں کی افواج، ہماری سرحدوں کی افواج ہماری ماﺅں بہنوں کی عصتمندی کی محافظ افواج کی ہرزہ سرزنش کی ہے۔سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ایک پڑھا لکھا شخص جس کے اباواجداد کو یہی پاکستانی فوج آگ اور فون کو دریا سے شرقی پنجاب سے ہندوں اور سکھوں کے چھتوں سے بچا کر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بسایا میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے کچھ جوانوں ایوب خان، یحیٰی خان، ضیاءالحق اور مشرف سے آئیڈیل حرکتیں سرزد ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود جب ہندو ہماری سرحدوں پر یلغار کرتی ہے۔تو یہی پاک فوج کے جوان ہیں جو اپنے سینے پر گولی کھاتیں ہیں رانا صاحب کیا آپ اپنے امریکی بستر سے نکل کر ہندو گرمی کا سامنا کرسکتے ہیں۔نہیں بالکل نہیں آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ ہمارا ڈیفنس بجٹ ہندوستان میں بنتا ہے اور یہ بات ہارے امریکہ میں منیر جمشید مارکر مرحوم نے کمیونٹی کو ایک فنکشن میں کی جب آپ پر سیاسی شہاب نہیں چڑھا تھا۔لہذا جمشید مارکر مرحوم کی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اگر حکومت پاکستان وطن کی عسکری قوت بڑھانے کے لئے سو فیصد کردیں تو خدا کی قسم میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اس ہندو کا مقابلہ کروں گا جو میرے ملک کی سرحدوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا۔رانا صاحب پلیز آپ نے جو کتے پا لیں ہوئے ہیں افواج پاکستان کو گالیاں دینے کے لئے ان کے منہ پر پٹہ ڈالیں۔امریکہ میں بیٹھ کر پاک فوج کو گالیاں نکالنا کوئی بہادری نہیں ہے۔آپ سیاسی جدوجہد کے آدمی ہیں کچھ دن ہوتے ہیں جب میں نے آپ کو ہندتوا کے ایک سرکردہ رہنما راج ناتھ کا کلپ بھیجا تھا اور آپ کو ریکوسٹ کی تھی۔کہ اس کلپ کو ضرور سنیئے کہ چین کے ہاتھوں اپنی سینا کی پٹائی دیکھنے کے باوجود کسی طرح ان کی مدد……..کر رہا ہے۔اس کو کہتے ہیں فیشلزم آپ بھی اپنے اندر نشلسٹ سپرٹ پیدا کریں۔ورنہ مجھے ان کا ایک اینکر ارناپ گو سوامی بھارتی فوج کے خلاف بات کرنے والے کی کہتا ہے کہ چین چلے جاﺅ یا پاکستان چلے جاﺅ۔
قارئین وطن!راقم یہ سمجھتا ہے کہ ہماری افواج کے ہیڈکوارٹر میں بیٹھے کرنل بریگیڈیئر کے لیول کے افسران جن کا کام ہے سول اور ملٹری ایکشن کے درمیان پل کا کام کریں۔وہ اکثر اوقات لائین کراس کرکے اپنے ہیڈ کو مجبور کرتے ہیں۔کہ ملک کو لوٹنے والے فوجی گملوں میں تیار شدہ سیاست دانوں کی خبر گیری ضروری ہے۔جس طرح کورونا میں مبتلا شہبازشریف جس کے ہاتھوں پر سینکڑوں بے گناہ شہریوں کا خون ناحق ہے کی عیادت بھی ضروری ہے۔خدا اور کوئی ہے جو ان افسروں سے پوچھے کہ ایک لٹیرے کی عیادت کا قوم پر کتنا برا اثر پڑا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام سوچنے پر مجبور ہے کہ افواج پاکستان کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرکے عمران خان کی حکومت کو مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے۔اور یہی وجہ ہے کہ نیب نیازی گھٹ جوڑ نہیں ہے بلکہ نیب اور فوج آپس میں ملے ہوئے ہیں۔افواج پاکستان کے کمانڈو کو اس تاثر کو زائیاں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اسی وجہ سے افواج کو گالیاں نکالنے والے بھی شیر بنے بیٹھے ہیں۔
قارئین وطن!ہفتہ کی شب اتنی بجلیوں کے باوجود میرے پیارے بھائی زاہد چغتائی نے اپنے چھوٹے بھائی فرخ نواز چغتائی کی رحلت کی خبر دے کر آسمان بجلی گرا دیا پھر جیسے اناللہ وانا الیہ راجعون!مرحوم میرے بہت ہی پیارے بڑے بھائیوں سے بھی زیادہ عزیز دوست شاہد نواز چغتائی کے چھوٹے بھائی تھے۔
اس کو مرحوم لکھتے ہوئے یقین جانئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیںاور دل مچل رہا ہے مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا کہ فرخ نواز اب ہم میں نہیں رہا ابھی کل کی بات ہے جب فرخ کو پہلی دفعہ گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول کی مجلس میں یتیم لڑکیوں کی شادی کرواتے دیکھا۔اس کے بعد پتا چلا کہ یہ ہمارے شاہد نواز چغتائی کے چھوٹے بھائی ہیں۔اور دبئی میںSohleسٹل ہیں۔اور ان کا شمار دوبئی کے اربوں پتوں میں ہوتا ہے۔میرا زیادہ تعارف تو نہیں تھا لیکن جتنا بھی اس سے ملا ایک ہمدرد اور غریبوں کی مدد کرنے والا پایا۔شاہد صاحب نے مجھے اور میاں وحید مغل کو اپنے بھتیجے کی شادی پر فلیئیز ہوٹل لاہور میں مدعو کیا اپنے زمانے کی ایک بہت بڑی شادی تھی۔جس کو میں نے اور میاں وحید نے خوب انجوائے کیا مرحوم جہاں اتنا فراخ دل اور دولت نچھاور کرنے والا دوست تھا اس نے ہم نیویارک کے شاہد نواز چغتائی کے دوستوں سے بڑا ظلم کیا کہ انہوں نے شاہد نواز کو دوبئی بیٹھا جہاں وہ ان کے ایک بہت بڑے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔نیویارک اور تحریک انصاف کے دوست جانتے ہیں کہ ابھی حال میں پنجاب کے گورنر چودھری سرور جو کھیپ سروری کے حوالے سے مشہور ہیں کہ دورہ امریکہ کو اسپانسر کیا، ہائے شاہد نواز چغتائی کے اس بھائی کو نظر لگ گئی اور کرونا کا بھوت اس کو نگل گیا۔میرے اللہ پاک فرخ نواز چغتائی کی مغفرت فرما اس کے تمام کبیرہ وصغیرہ گناہوں کی بخشش دے۔جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام فرما کہ اس نے یتیم لڑکیوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔میرے اللہ شاہد نواز چغتائی، زاہد نواز چغتائی، فیاض نواز چغتائی اور تمام اہل خانہ اور عزیز ارقاب کو صبر جمیل عطا فرما۔(امین)!

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here