عمران خان کے مختلف روپ!!!

0
187
پیر مکرم الحق

 

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

عوام نے انتخابات سے پہلے عمران خان کا ایک انوکھا روپ دیکھا تھا جو اسٹیبلشمنٹ مخالف تھا، اسٹیٹس قو مخالف تھا۔روایتی سیاستدان مخالف تھا اور بدعنوانی کا شدید مخالف تھا۔یہ ساری باتیں یکجا ہوں تو عمران خان بنتا تھا جس کے مسخر میں نوجوانوں کو اپنے خوابوں کا عکس نظر آنے لگا۔لیکن اگر اس سے پہلے کے دور میں جائیں تو یہی عمران خان جنرل مشرف کے نہایت قریب رہے اور بقول انکے انہوں نے وزارت عظمیٰ کی آفر بھی ٹھکرا دی کیونکہ بقول انکے انہیں چور دروازے سے اقتدار میں آنا ہرگز پسند نہیں تھا۔پھر بھی عمران خان کے مقتدر حلقوں میں دوستیاں اور تعلقات تھے ایک تو انکے شہیال برگی خاندان کے کئی افراد فوج میں ملازمت کر چکے ہیں۔اور کچھ اب بھی موجود ہیں۔لیکن اہم ترین کردار میاں یوسف صلاح الدین کا ہے جو عمران خان کے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔جن کو قریبی دوست احباب”صلی“کے نام سے پکارتے ہیں۔علامہ ا قبال انکے نانا تھے اور خود ملی بھی ادب وثفافت سے گھرا تعلق بھی رکھتے ہیں باذوق ہونے کے علاوہ خود بھی مختصر کہانیاں اور شاعری کی تخلیق بھی کرلیتے ہیں انکے پروگرام ورثہ اور حویلی ٹی وی پر بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جمائما کا عمران سے الگ ہونے کے فیصلے کے پیچھے بھی عمران کا زیادہ وقت یوسف صلاح الدین کی حویلی میں زیادہ وقت گزارنا تھا۔جہاں پر ہر وقت لاہور کی ایلیٹ مصنف نازک کا پڑاﺅ رہتا تھا۔اسی مقام پر جنرل مشرف کے ساتھ عمران خان کا تعلق جڑا تھا۔بحرکیف ہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ جنرل مشرف ایک شوقین مزاج آدمی تھے اور عمران خان بھی کسی سے کم نہیں تھے۔بہرحال یہ انکا ذاتی فعل تھا اس پر مزید کچھ کہنا مناسب نہیں۔بحیثیت ایک کامیاب کرکٹر تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان جیسی شہرت دنیا کہ کسی کرکٹر کو نصیب نہیں ہوئی۔جسکو حاصل کرنے کے بعد انہوں نے شوکت خانم کینسر ہسپتال بنوانے کا مشن ہاتھ میں لے لیا جس میں بھی انہیں نہ صرف کامیابی ہوئی لیکن ساتھ میں انہیں بھی دنیا بھر کی مشہور شخصیات نے نہ صرف مدد کی بلکہ انکی شخصیت کو مزید سراہا پھر سونے پر سہاگہ ہے کہ برطانیہ کے امیر ترین آدمی کی اکلوتی بیٹی جمائما سے شادی بھی ہوگئی جنکا تعلق یہودی مذہب سے تھا جس سے مذہبی حلقہ خوش نہیں تھے۔اسٹیبلشمنٹ کے دوستوں کا بھی یہی خیال تھا کہ عمران خان کا یہ رشتہ سیاست کے میدان میں ایک رکاوٹ اور بوجھ کی طرح سے اسلئے جو لوگ عمران خان کو آگے لانا چاہتے تھے انہوں نے بھی اسی رشتہ کے ٹوٹنے پر سکھ کا سانس لیا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مقتدر حلقہ شروع سے عمران خان کو تیار کر رہے تھے تو پھر اس دوران کھل کر عمران خان انہیں حلقوں پر شدید تنقید کیوں اور کیسے کر رہے تھے؟کیا وہی حلقہ انہیں کہہ رہے تھے کہ آپ ہمیں برا بھلا کہیں تاکہ عوام کو معلوم پڑے کہ آپ ہماری سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں!۔اور اس سے آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔بظاہر تو یہ بات انہونی لگتی ہے لیکن پھر جہانگیر ترین شاہ محمود قریشی، شیخ رشید اور گجرات کے چودھریوں کا عمران خان سے آملنا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ شروع سے عمران خان کو تیار کر رہی تھی اور وقت آنے پر اپنے سارے مہرے انکو دیکر، عمران خان کو پوری طرح گھیر لیا۔اس بات کو یقینی بنا دیا کہ خان کہیں ہمارے دیئے ہوئے راستے سے بھٹک نہیں جائیں۔
بظاہر عمران خان بڑے خوش خلق بنے پھرتے ہیں لیکن جس طرح وہ اپنی سیاسی رفقا پر اپنا غصہ اتارتے ہیں اس وقت انہی رفقا کا کہنا ہے کہ عمران خان میں کالا باغ امیر محمد خان کی روح نظر آتی ہے۔اسی لئے انکے تعلقات اپنے قریب ترین عزیز انعام اللہ خان نیازی سے بھی نہیں بنتی جن کا خیال ہے کہ عمران فرعون ہے سامان ہے!!!
لیکن سیاسی رفقا کا بھی ایک ایسا گروہ ہے جن کے ساتھ وہ ایک دوستانہ سا رویہ رکھتے ہیں جنہوں نے انتخابات میں انکی مالی اعانت کی ہے اور جن کے وسائل وسیع ہیںجن میں زلفی بخاری،اعظم خان سواتی، ووڈا، زیدی اور گل انکے اندرونی حلقہ کے لوگ ہیں۔جاوید ہاشمی جیسے اصول پسند آدمی کے ساتھ انکی نہیں بن سکی کیونکہ ہاشمی صاحب جی حضوری نہیں کرتے لیکن شیخ رشید جیسے آدمی جنہیں ٹی وی شو میں کہا کہ ان جیسے بےشرم آدمی کو تو میں چپڑاسی بھی نہیں رکھوں گا۔انہیں وزیر داخلہ بنا دیا کیونکہ وہ مقتدر حلقوں کا ونڈر بوائے ہے۔مولانا اعظم طارق اور پروفیسر رفیق اختر کے سامنے عمران خان اللہ والے بن جاتے ہیںلیکن صلو میاں کی حویلی نے انکا کوئی اور رخ دیکھا ہے۔شفقت محمود اور شاہ محمود کے ساتھ بات کرنے کا اور انداز ہے۔مطلب کہ شاعر”ایک چہرے پر کئی چہرے لگا لیتے ہیں لوگ“ مقتدر حلقہ کے رہنماﺅں کے سامنے وہ بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔تلخ سے تلخ بات پر بھی خون کا گھونٹ پی کے مسکرا دیتے ہیںیہی ادا تو جنرل پاشا سے لیکر جنرل باجوہ کو بھا گئی ہے اور ان کو بھی کوئی خطرہ نہیں کہ آگے چل کر عمران خان کوئی انکے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اسے اسی لیے اس مرتبہ انہوں نے شرط بوڑھے گھوڑے کی آخری دوڑ پر لگائی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here