انا پرست حکمرانوں کا انجام برُا ہے!!!

0
219
پیر مکرم الحق

 

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

جس طرح کہا جاتا ہے کہ پھلدار درخت جھک جاتا ہے کیونکہ پھلوں کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔اسی طرح حکمرانی کے بھی بوجھ ہوتے ہیں۔ذمہ داریاں، عوام کے سامنے جوابدہی اور ان سب سے اہم امانت کا بوجھ، اقتدار اللہ کی امانت ہوتی ہے اگر عوام کسی حکمران سے تنگ آجائے تو انکے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اُٹھ جاتے ہیںاور پھر عذاب الٰہی حرکت میں آجاتا ہے۔آج امریکہ جیسا طاقتور ملک اپنے حکمران سے تنگ آگیا ہے۔جس شخص نے اپنے اقتدار کو ایسی تلوار بنا ڈالا جو فقط غریب، پسے ہوئے طبقات اور پناہ گزینوں پر اُٹھتی رہی وہی امریکہ جس کے نظام انصاف کا محل تک ڈنکا بجتا تھا۔اسی ملک کے ظالم حکمران نے رسہ گیروں، فراڈیوں اور قاتلوں کو معافی دیکر خدا کے قہر کو آواز دیدی کل تک یہی حکمران لوگوںکامذاق اڑاتا تھا معذوروں کی نقل کرکے اپنے چیلوں کو ہنساتا تھا آج وہ اپنے ریاستی الیکشن افسروں کی منتیں کرتا سنا گیا کہ مجھے کچھ ووٹ لا دو جنہیں میں اپنے ڈبوں میں ڈال کر فاتح ہو جاﺅں۔ستم ظریفی دیکھئے کے کل تک یہی حاکم کہتا پھرتا تھا کہ میں دنیا کا ذہین ترین آدمی ہوں مجھ سے بہتر حکومت کرنے کا علم کسی کو بھی نہیں، مجھ سے بہتر کوئی جنرل جنگ کو نہیں سمجھ سکتا، خارجہ امور مجھ سے بہتر کوئی سمجھ نہیں سکتا ،مالی امور اور کاروباری امور کی سمجھ بوجھ تو مجھ پر ختم ہوتی ہے۔آج وہی فرعون ہے سامان کاسہ لئے ووٹوں کی بھیک مانگتا پھر رہا ہے۔
پھرتے ہیں مہر خوار!
کوئی پوچھتا نہیں!
تکبر کسی انسان کو کبھی بھی نہیں راس آتا ہے۔تکبر چاہے زور کا بھی ہو تقویٰ کا بھی ہو خدا کو قطعی پسند نہیں۔اردگرد دیکھئے تو ایسے انسانوں کی کمی نہیں کوئی اپنی امارت ودولت پر اتراتا ہوا پائیں گے۔تو کوئی اپنے حسن و جوانی کے نشے میں مگن ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر شے فانی ہے سوائے خدا کی ذات کے۔اور اگر یہی تکبر کسی حکمران کے دل ودماغ میں آئے تو وہ نہ صرف اسکی ذات کے لئے نقصان دہ ہوتاہے۔بلکہ اس ملک وقوم کیلئے بھی جس کے اوپر ایسے حکمران کو مسلط کیا گیا ہے۔سعودیہ کا شہزادہ محمد بن سلمان ہو، روس کا پیوٹن ہو، برطانیہ کا بورسن ہو یا پاکستان کا عمران خان ہو، تکبر کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔زمین کی طرف دیکھ کر چلنے والا انسان کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا۔
اسکے برعکس جو شخص گردن اکڑا کر اپنے کو افضل اور دوسروں کو حقیر کیڑے مکوڑوں کی طرح سمجھتا ہے پھر وہی کیڑے مکوڑے اس کے ماس کو اپنی خوراک بنا لیتے ہیں۔اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر اپنے کو غریبوں کا دوست نہ صرف سمجھنا یا کہنا بلکہ اپنے عمل اور طرز حکمرانی سے ثابت کرنا ہی وہ صاحب ظرف اور احساس رکھنے والا حکمران ہوتا ہے جس کی توجیہہ اقبال نے یوں کی ہے:۔
نگاہ بلند، سُخن دلنواز
جاں پُرسوز، یہی ہے رخت سفر
میر کاروان کیلئے
جس حکمران کے دل میں اپنی رعایا کیلئے کوئی احساس نہیں ہمدردی نہیں ناہی دلجوئی کرنے کی ہمت ہو وہ اس قوم کیلئے ایک عذاب ہوتا ہے۔شاید یہ اس قوم کے کرتوتوں کی سزا ہو۔بلوچستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ عرصے بعد کسی عطا بلوچ کے خون سے ہوئی کھیلتے رہتے ہیں۔ہزارہ قبیلے کے نوجوانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلتے ہیں۔کیا بلوچستان کے لوگ پاکستانی نہیں ہیں ان کو انصاف نہیں ملےگا کیا؟
کچھ دن پہلے کراچی کے ہونہار بچے اوسامہ کو جعلی مقابلے میں قتل کردیا گیا۔کینیڈا میں بلوچ قوم پرست خاتون رہنما کریمہ بلوچ کو قتل کروا دیا گیا اب قاتل ایجنسیاں کہیں پھر رہی ہیں کہ یہ سب کچھ ہندوستان کر رہا ہے۔پھر اکبر بگٹی کو بھی ہندوستان نے قتل کروایا تھا۔سفر خاں میر پسند خان ملازئی قبائلی سرداروں کو بھی ہندوستان میں قرآن پاک کا واسطہ دیکر پہاڑوں سے اتار کر ہلا کردیا۔ اب بجاری کریمہ بلوچ جیسے نوے فیصد عوام جانتی ہیں نہیں تھی اسے ہندوستان کے کھاتے میں صرف یہیں ڈالتے بلکہ اس مرحومہ پر الزام بھی لگاتے ہیں۔کہ وہ(را) کی ایجنٹ تھی۔کتنی زیادتی ہے وہ بھی تو کسی کی بیٹی اور بہن تھی۔عمران خان آپ کے دور میں پاکستان یا پاکستان کے باہر ریاستی اداروں کے ہاتھ کئے گئے تمام قتل کے ذمہ دار آپ ہیں۔خدا کے سامنے آپ ہی کو جوابدہ ہونا پڑیگا۔اگر خوف خدا ذرا برابر بھی ہے۔تو ان ظالمانہ پرتشدد کارروائیوں کی کھل کر مذمت کریں جن لوگوں نے عطا بلوچ کو قتل کیا ان لوگوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائیں اور اوسامہ کے قاتل پولیس والوں کی بھی پکڑ ہونی چاہئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here