میڈیا آزاد ہے،پیمرا کی نگرانی میں!!!

0
172
کامل احمر

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا سابقہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا،انکے مخالف کہتے ہیں یہ لعنت پرویز مشرف کی دی ہوئی ہے۔اب ان کے ہر کام کو برُا بتایا جارہا ہے،اخبار کے رپورٹر اور ٹی وی کے اینکر مجبور ہیں کہ ان کے اوپر ایک شخص ہوتا ہے جیسے پروڈیوسر کہتے ہیںجس کا کام چینل کی ریٹنگ کو اوپر کرنا ہوتا ہے ،جتنی ریٹنگ اوپر ہوگی اتنا ہی ریونیو اشتہاروں کے ذریعے ملے گااور مالکان کو فائدہ ہوگا جو پیسے کے لالچ میں کچھ بھی کرسکتے ہیںاور انکا تعلق صحافت یا فنون لطیفہ سے کبھی نہیں تھا ،سب سے پہلے جیوTVنے اپنا جال پھینکا تھا،اس کے بعد دوبئی میں سونے کا کاروبار کرنے والے میدان میںARYچینل لے کر کودے جنہیں صحافت اور نشریات کی الف ب نہیں آتی تھی۔آنے والے وقت میں جیو ٹی وی کے شکیل الرحمن پر الزام لگے اور مقبولیت میں فرق پڑا۔عمران خان کے الیکشن سے پہلے اور اب تکARYکے مزے آگئے اور انہوں نے غیر معیاری اور فحاشی والے پروگرام کو صبح کے شو میں شریک کیا۔سماءٹی وی والوں نے ساحر لودھی نام کے مسخرے کو صبح کا پروگرام دیا جس نے شروع میں ہی دو تین واہیات پروگرام دے کر شہرت حاصل کرلی اور چھوٹے بڑے ہر چینل نے واہیات پروگرام دینا شروع کردیئے۔یہ پروگرام امریکن چینل پر دکھائے جانے والے پروگراموں سے بھی بدتر تھے جو نوجوانوں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں پر مبنی گرل فرینڈ بوائے فرینڈ محبوبہ بیوی کی آپس کی چپقلش پر ہوتے تھے۔ایک پروگرام جو بے حد مقبول ہوا تھا ،اس کا نام تھاجیری اسپرنگرشوJERRY SPRIN GE SHOW یہ صبح کا پروگرام تھا اور یہ یہاں کے نچلے طبقے کے معاشرے کی گند تھی جو آزادی کو پاﺅں کے نیچے روندتے ہیں شام کے پروگرام اور دوسرے معیاری ٹاک شو بھی ہوتے تھے لیکن امریکن میڈیا نے پرہیز کیا ہر چند کہ کوئی پابندی نہیں تھی اور نہیں ہے، حکومت کی طرف سے یہ بات80کی دہائی سے پہلے کی تھی کہ ٹی وی میڈیاFCCکے کنٹرول میں تھااور ٹی وی چینل اس کا پابند ہوتا تھا کہ پرائم ٹائم میں ایک گھنٹہ کے شو میں کتنے اشتہار دکھانا ہے ،یہ بھی کہ بہت سے اشتہاروں کوFCCسے سنسر ہونا ہوتا تھا اور اگر عوام احتجاج کریں تو اشتہار کو ہٹانا پڑتا تھا، افسوس اب امریکہ میں بھی شعور کا فقدان ہے ، میڈیا اور دوسری کارپوریشن لالچ میں مادر پدر آزاد معاشرے میں گند پھیلا رہے ہیں۔یہ1992کی بات ہے ہم یہاں آئے تھے اور کسی سے پوچھا ہاں(نیویارک) میں مسلمانوں کی کیا تعداد ہے جو اب ملا بہت کم لیکن ہر جگہ ہر دوکان میں اسلام ملے گالیکن اب ایسا نہیں ہے نہ ہی یہاں عیسائیت کا زور رہے اور تھرڈ ورلڈ ملکوں سے آنے والوں نے آزادی کا فائدہ اٹھا کر قانون سے کھلواڑ کر رکھا ہے۔30کروڑ کی آبادی میں دیکھے جانے والے بہت کم ٹی وی چینل میں ویسے بھی نئی جنریشن کو خبروں سے اور دنیا میں کیا ہورہا ہے کوئی دلچسپی نہیں اب ہم پاکستان میں میڈیا کے بارے میں بتاتے ہیں جیسے ہم الیکٹرانک میڈیا(سیٹلائٹ) کہتے ہیں۔پاکستان کی بیس کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں اس وقت119چینل میں جب کہ پیمرا(PEMRA)پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو صرف80چینل دینے کی چھوٹ تھی اور ایک فیڈرل ادارہ ہونے کے تعلق سے اسے پابندی کرنا تھی لیکن ہر ادارے کی طرح یہ ادارہ بھی بے سہارا اور نے نکیل ہے کہ بے کار باتوں پریا غیر ضروری تنقید پر فوراً اینکر پر پابندی لگا دیتا ہے جھوٹی خبر دینے پر لیکن لوگوں میں اشتعال انگیزی پھیلانے والے چینل کو نظر انداز کرتا ہے۔
ترکی، اردگان اور ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد نے فیصلہ کیا کہ آج کی نسل کو سینما اور ٹی وی میڈیا کے ذریعے شعور دیا جائے کہ اسلام میں غلط اور صحیح کیا ہے۔حق اور ناحق کیا ہے2011کے آخر میں ترکش ویڈیو اینڈ ٹیلی ویژن کارپوریشن(TRT)نے500کے قریب قسطوں پر مبنی تاریخی ڈرامہ براڈ کاسٹ کرنا شروع کیا جس نے ترکی کے عوام بالخصوص نوجوانوں کی سوچ کوبدل دیا اس کا نام ارطغرل ہے جو رمضان شریف کے ماہ سےPTVکی زینت بن کر مقبول عام ہوچکا ہے اس ڈرامہ سیریل کی خوبیاں کہانی سے کردار نگاری فوٹو گرافی سے موسیقی اور منظر نامہ سے کاسیٹوم گنوائیں تو ہمیں سو صفحات درکار ہونگے۔
دونوں رہنماﺅں نے جان لیا کہ آج کا ٹی وی میڈیا بے حد طاقتور ہے جو کتابوں سے زیادہ پر اثر ہے اور سوچ کو بدل سکتا ہے لیکن ان لوگوں کی سوچ کو جو بے ایمان نہ ہوں۔
کیا یہ پاکستان میں ہوسکتا ہے جہاں کے90فیصد عوام اور ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہے جو منتشر ہے، دماغی الجھنوں میں ہے یعنیCONFUSEہے۔جہاں اسکولوں کے تین نظام ہیں، انگریزی اسکول ایک نامBACONہے دوسرے پبلک اسکول اور تیسرے مدرسے اور ان اسکولوں میں قرآن قرات کے ساتھ بڑھایا تو جاتا ہے لیکن ترجمے کے ساتھ نہیں اور ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے کہ معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے اسکے علاوہ معاشرے بگاڑنے میں جو کاری ضرب پڑ رہی ہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہے جس پر واہیات ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں۔تم میرے پاس ہو، ننھی، چپ رہو،بلا، بے قصور، سنگت ایک تمنا لاحاصل ہے۔گل رعنا جانم یہ بے مقصد اور معاشرے کی بدترین عکاسی کر رہے ہیں یہ ان گھروں اور اس ماحول کی کہانی دکھا رہے ہیں جن کے بچے باہر رہتے ہیں جو انگریزی اسکولوں سے نکل کر اردو بھول جاتے ہیں۔
کیا ہماری تاریخ اور معاشرے میں کوئی کردار ایسا نہیں جو اکثریت کی عکاسی کرسکے اس کے پیچھے باہر کیNGOSکا ہاتھ ہے یا ہندو توا جو ہم کئی بار لکھ چکے ہیں، ہر معاشرے میں یہ برائیاں ہوتی ہیں لیکن انکو پھولوں سے سجا کر اُجاگر نہیں کیا جاتا عوام کو شعور دینا ہے تو ہمیں بھی ارطغرل جیسے ڈرامے بنانے ہونگے۔ہم ٹی وی کے کرتا دھرتا آدمی نہیں عورتیں ہیںلیکن وہ بھی پیسوں اور شہرت کی خاطر بے راہ روی پھیلانے میں کم نہیںاور آج جو ہم دیکھ رہے ہیں، اس میں بھی حکومت اور پیمرا کا دخل ہے۔کیا ہم یقین کرلیں پاکستان میں سب کچھ غلط راستے پر چل رہا ہے۔کیا میڈیا اپنی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیمرا کی آنکھوں میں دولت انڈیل کر صبح کے پروگراموں میں اپنی حدیں بھول جائے گا۔آزادی کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کپڑے اتار پھینکو اور اپنی گند معاشرے پر ڈال دو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here